کیا وقف کا ارادہ کرنے سے وقف کرنا لازم ہو جاتا ہے؟


سوال نمبر:6075
السلام علیکم!مفتی صاحب! میری بھابھی کا انتقال ایک سال پہلے ہوا تھا، ان کے نام پر ایک پلاٹ تھا جو ان کے والد صاحب نے خرید کر اپنی بیٹی کے نام کروایا تھا۔ اس پلاٹ کے آدھے حصہ پر میرے بھائی نے مکان تعمیر کر لیا جس میں رہائش پذیر ہیں اور آدھا پلاٹ ابھی خالی پڑا ہوا ہے۔ بھابھی کے والدین ان کی وفات سے پہلے انتقال کر چکے ہیں اور میرے بھائی ماشاءاللہ حیات ہیں۔ ان کی اولاد میں چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں اور سب شادی شدہ ہیں۔ ان کی بیٹیاں ابھی اپنی والدہ کی جائیداد سے اپنے حصے کا مطالبہ کر رہی ہیں کہ ہمیں ہمارا حصہ دیا جائے۔ براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ یہ حصے کس حساب سے تقسیم ہونگے اور کیا اس جائیداد میں بھائی کا بھی حصہ بنتا ہے؟اور دوسری بات بھابھی کا جب انتقال ہوا تو ان کی ذہنی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی اور شوگر وغیرہ کا مرض بھی لاحق تھا اور بھائی یہ بات بتا رہے ہیں کہ پہلے جب اس کا ذہنی توازن درست تھا تو وہ یعنی بھابھی کہتی تھیں کہ یہ جگہ میں نے مسجد کیلئے مختص کر دینی ہے۔ یہ تقریباً سولہ یا سترہ سال پہلے کی بات ہے اس بھائی اور بھابھی کویت میں مقیم تھے اور ان کی ذہنی حالت بھی ٹھیک تھی۔ یہ بات صرف بھابھی نے میرے بھائی سے کی تھی ان کے بچوں کو اس بات علم نہیں تھا۔ پلاٹ کا وہ آدھا حصہ جس پر گھر تعمیر ہوا جس میں رہائش پذیر ہیں اس کو بنے ہوئے تقریباً سات سال ہوگۓ ہیں اور بھابھی کی ذہنی حالت اس سے کافی پہلے کی خراب ہو چکی تھی۔ بھائی ابھی یہ جاننا چاہتے کہ بچے اب جیسے اپنا حصہ والدہ کی جائیداد سے مانگ رہے ہیں تو کیا ساری جگہ بیچ کر ان کو حصے دیے جائیں یا کہ جو آدھا خالی ہے وہ مسجد کیلئے مختص کر دیں اور رہائش والا حصہ بیچ کر سب کو حصے دے دیے جائیں، جبکہ رہائش کیلئے اور کوئی دوسرا گھر نہیں ہے۔ براہ مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ

  • سائل: محمد منیرمقام: کویت
  • تاریخ اشاعت: 10 جنوری 2023ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت  |  وقف کے احکام و مسائل

جواب:

صورت مسئلہ کے مطابق سائل کی بھابھی نے نہ تو پلاٹ کسی مسجد کو وقف کیا اور نہ وقف کرنے کی وصیت کی، صرف ارادہ ظاہر کیا کہ مستقبل میں یہ جگہ مسجد کیلئے مختص کر دینی ہے۔ محض ارادہ ظاہر کرنے سے وقف کے احکام لاگو نہیں ہوتے جبتک کہ وقف کے الفاظ ثابت نہ ہوں۔ اگر مذکورہ خاتون صریح یا کنایہ الفاظ بول کر یا لکھ کر اس جگہ کو مسجد کیلئے وقف کر دیتیں تو یہ وقف شمار ہوتا اور اسے وراثت میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا تھا، مگر یہاں وقف کا ثبوت نہیں ہے، محض ارادہ ہے۔ وقف ثابت نہ ہونے کی وجہ سے پلاٹ کو مرحومہ کے ورثاء میں قانونِ وراثت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

سائل کے بقول ورثاء میں شوہر، دو بیٹے اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ ان ورثاء کی موجودگی میں ترکہ کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ کل قابلِ تقسیم ترکہ سے شوہر کو چوتھا حصہ (1/4) ملے گا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ لَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ ؕ

النِّسَآء، 4: 12

اور تمہارے لئے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لئے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد۔

مرحومہ کے شوہر کو پلاٹ کا چوتھائی حصہ دینے کے بعد بقیہ پلاٹ کے چھ (6) برابر حصے بنا لیے جائیں، ہر بیٹے کو دو حصے ہر بیٹی کو ایک حصہ دیا جائے گا۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:

یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ۚ

النِّسَآء، 4: 11

اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔

اس طرح مرحومہ کا ترکہ ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔ اگر کوئی وارث اپنا حصہ مرحومہ کے ایصالِ ثواب کیلئے مسجد کو وقف کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، لیکن مرحومہ کی طرف سے وقف ثابت نہیں ہوتا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری