جواب:
صورت مسئلہ کے مطابق سائل کی بھابھی نے نہ تو پلاٹ کسی مسجد کو وقف کیا اور نہ وقف کرنے کی وصیت کی، صرف ارادہ ظاہر کیا کہ مستقبل میں یہ جگہ مسجد کیلئے مختص کر دینی ہے۔ محض ارادہ ظاہر کرنے سے وقف کے احکام لاگو نہیں ہوتے جبتک کہ وقف کے الفاظ ثابت نہ ہوں۔ اگر مذکورہ خاتون صریح یا کنایہ الفاظ بول کر یا لکھ کر اس جگہ کو مسجد کیلئے وقف کر دیتیں تو یہ وقف شمار ہوتا اور اسے وراثت میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا تھا، مگر یہاں وقف کا ثبوت نہیں ہے، محض ارادہ ہے۔ وقف ثابت نہ ہونے کی وجہ سے پلاٹ کو مرحومہ کے ورثاء میں قانونِ وراثت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
سائل کے بقول ورثاء میں شوہر، دو بیٹے اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ ان ورثاء کی موجودگی میں ترکہ کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ کل قابلِ تقسیم ترکہ سے شوہر کو چوتھا حصہ (1/4) ملے گا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ لَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ ؕ
النِّسَآء، 4: 12
اور تمہارے لئے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لئے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد۔
مرحومہ کے شوہر کو پلاٹ کا چوتھائی حصہ دینے کے بعد بقیہ پلاٹ کے چھ (6) برابر حصے بنا لیے جائیں، ہر بیٹے کو دو حصے ہر بیٹی کو ایک حصہ دیا جائے گا۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ۚ
النِّسَآء، 4: 11
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔
اس طرح مرحومہ کا ترکہ ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔ اگر کوئی وارث اپنا حصہ مرحومہ کے ایصالِ ثواب کیلئے مسجد کو وقف کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، لیکن مرحومہ کی طرف سے وقف ثابت نہیں ہوتا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔