جواب:
اگر رخصتی کے بعد اگر میاں بیوی کے درمیان جسمانی تعلق یا خلوتِ صحیحہ (نکاح کے بعد لڑکی لڑکے کا ایسے اکیلا/خلوت میں ہونا کہ مباشرت میں کوئی امر مانع نہ ہو) ثابت ہے تو طلاق، خلع یا عدالتی تنسیخ کا فیصلہ ہونے پر بیوی پر عدت گزارنا واجب ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ.
(الْبَقَرَة، 2 : 228)
اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔
مندرجہ بالا آیت میں ایسی مطلقہ عورت کا حکم بیان کیا گیا ہے جس نے شوہر کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کر لیا ہو یا ان کی خلوتِ صحیحہ ثابت ہوچکی ہو، اور اس عورت کو حیض بھی آتا ہو طلاق کے بعد اس پر تین حیض تک عدت گزارنا ضروری ہے۔
عدت سے استثنیٰ صرف غیرمدخولہ کیلئے ہے۔ مطلقہ غیرمدخولہ پر عدت واجب نہیں ہے۔ عدت کا نفاذ/شمار تب سے کیا جائے گا جب شوہر کی وفات، طلاق، خلع یا تنسیخِ نکاح واقع ہوگی، جب تک اِن میں سے کوئی امر واقع نہیں ہوتا اس وقت تک نکاح برقرار رہے گا، چاہے میاں بیوی لمبے عرصے تک ایک دوسرے سے الگ رہیں۔ صورت مسئلہ میں بھی سائلہ کے لیے بھی لازم ہے کہ جب عدالت سے خلع یا تنسیخِ نکاح کا فیصلہ حاصل کرلیں تو جس تاریخ کو فیصلہ آئے گا اُس دن سے اُن کی عدت شروع ہوگئی جس کی مدت تین حیض تک ہے۔
جواب کی مزید وضاحت کیلئے درج ذیل سوال ملاحظہ کیجیے:
اگر زوجین پانچ سال سے الگ رہائش پذیر ہوں تب بھی عدت لازم ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔