جواب:
شریعت نے یتیم کے ولی کیلئے لازم کیا ہے کہ مالِ یتیم اُس وقت تک یتیم کے سپرد نہ کیا جائے جب تک ولی یتیم میں عقل و رشد اور سمجھداری و ہوشیاری نہ دیکھ لے، کہ مبادا یتیم بچہ ناسمجھی میں اپنا مال ضائع کر بیٹھے یا حرام کاموں پر خرچ کرے اور کل کو فقر و فاقہ کی نوبت آ جائے اور دوسروں سے مانگتا پھرے۔ اس لیے یتیم جب تک حُسنِ تصرف کے قابل نہ ہو مال اس کے سپرد نہ کیا جائے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُواْ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُواْ عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللّهِ حَسِيبًا.
(النِّسَآء، 4 : 6)
اور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حُسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو، اور ان کے مال فضول خرچی اور جلد بازی میں (اس اندیشے سے) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو (کر واپس لے) جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ (مالِ یتیم سے) بالکل بچا رہے اور جو (خود) نادار ہو اسے (صرف) مناسب حد تک کھانا چاہئے، اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو، اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہے۔
سائل اپنے بھتیجے کو اعتماد میں لیکر اسے سمجھائیں کہ وہ اپنا پیسہ فضول خرچی میں ضائع نہ کرے بلکہ سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستقبل کی ضروریات کا خیال رکھے۔ اگر وہ بچہ سمجھدار ہے تو اس کا مال اس کے حوالے کر دیا جائے۔ پاکستان کے قوانین کے مطابق لڑکوں کی بلوغت کی عمر 18 سال تسلیم کی جاتی ہے، عموماً 18 سال کے بچے سمھجھدار و ہوشیار ہو جاتے ہیں اور اپنا بھلا برا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اس لیے سائل بچے کے 18 سال کی عمر کے ہونے پر اس کا مال اس کے حوالے کر دیں اور سرپرست کے طور پر خیال رکھیں کہ بچہ حسنِ تصرف سے کام لے اور اپنا مال ضائع نہ کر دے۔ اگر بچہ سمجھدار ہے تو 18 سال سے پہلے بھی مال اس کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔