مزاراتِ اولیاء پر دعا مانگنے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:6027
مفتی صاحب سے عرض ہے کہ مندرجہ بالا چند سوالات کے جوابات ارشاد فرما دیں؛ 1- جو لوگ داتا صاحب یا کسی بھی ایسی ہستی کے دربار پر جاتے ہیں یا دعا مانگتے ہیں یا منت یا کوئی مراد مانگتے ہیں، انکا ایسا کرنا کیسا ہے؟ 2- اگر ایسا کرنا جائز ہے تو اس عمل کا موزوں طریقہ کیا ہے کہ شرک سے بھی بچا جا سکے؟ 3- کیا ہمیں اوپر دیے گئے سوالوں کے جوابات جاننے کے بعد ان ہستیوں کے درباروں پر جا کر دعا، منت یا مراد وغیرہ مانگ لینی چاہیئے؟ اگر ہاں تو کیا اس طرح سے مانگی گئی دعاؤں اور خود سے گھر بیٹھ کر جو عموماً دعا مانگتے ہیں، اس طرح سے مانگی گئ دعاؤں کی قبولیت میں کسی درجہ بندی کا کوئی عمل دخل ہے؟ کیا وہاں جا کر مانگی گئی دعاؤں کی قبولیت زیادہ ہے؟ براہ مہربانی ایک ایک سوال کا کلئیر جواب ارشاد فرمائیے گا تا کہ باقیوں کی بھی اصلاح ہو سکے۔ جزاکم اللہ خیرا

  • سائل: عبیدمقام: اسلام آباد
  • تاریخ اشاعت: 27 اکتوبر 2022ء

زمرہ: تصوف  |  توسل

جواب:

آپ کے سوالات مختصر جوابات درج ذیل ہیں:

1۔ کسی نیک ہستی کے دربار پر جا کر دعا مانگنا یا کسی دربار کے زائرین کے لیے کھانے کا اہتمام کرنے کی منت ماننا جائز عمل ہے۔ البتہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ دعا صرف اللہ تعالیٰ سے کی جانی چاہیے۔ دعا میں کسی صالح شخصیت، عملِ صالح یا صفاتِ الٰہی کا وسیلہ پیش کرنا جائز ہے۔ منت بھی کسی عبادت کی مثل ہونی چاہیے، کسی غیرشرعی عمل کی منت ماننا اور اسے پورا کرنا چائز نہیں ہے۔

2۔ موزوں طریقہ صرف اور صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ جو بھی مانگا جائے وہ صرف اللہ سے مانگا جائے، منت بھی وہی پوری کی جائے جو شرعاً درست اور جائز ہو۔ کسی نبی، ولی یا صالح شخصیت کے توسُّل سے دعاء کرنا مطلقاً درست ہے، خواہ مردہ ہو یا زندہ۔

ان سوالات کے تفصیلی جوابات جاننے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی درج ذیل کتب کا مطالعہ کریں:

کتاب التوسل

مسئلہ استغاثہ اور اس کی شرعی حیثیت

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری