نانی سے رضاعت کی صورت میں خالہ کی بیٹی سے نکاح کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:6020
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع عظام اس مسئلہ میں کہ (مقبول عالم) کو اس کی سگی نانی (نور بی بی) نے مدت رضاعت میں دودھ پلایا۔ بعد ازاں مقبول عالم کا اس کی سگی خالہ کی بیٹی سے مطابق شرع نکاح ہو گیا۔ بعدِ نکاح دونوں سے چار بچے ہوئے۔ جب یہ بات زید کو جو کہ (عالم دین) ہے پتا چلا تو اس نے کہا کہ ان کا نکاح سرے سے ہوا ہی نہیں ان میں فوراً جدائی کرائی جائے۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ: (1)کیا مقبول عالم کا یہ نکاح از روۓ شرع درست ہے یا نہیں؟ (2) اگر نہیں تو کیا ان دونوں کے درمیان تفریق ضروری ہے؟ (3) ان سے جو بچے ہوئے وہ حلالی ہونگے یا حرامی ؟ ثابت النسب ہونگے یا غیر ثابت النسب؟ (4) ظہور مسئلہ کے بعد بھی اگر دونوں تفریق نہ کریں اور سسرال والے چھپاۓ رہے تو ان سے رشتہ رکھنا کیسا؟ ان کے یہاں جانا اور کھانا پینا کیسا؟ محلہ اور دیگر رشتہ داروں کو قطع تعلق کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ (5) کیا وہ سبھی رشتہ دار جو جاننے کے بعد بھی تفریق نہ کرائیں۔ اور چھپاۓ رہے ۔اور زنا محض ہوتے ہوئے دیکھا وہ سب کے سب لائق عضب جبار و مستحق عذاب نار ہوں گے یا نہیں؟

  • سائل: غیاث الدینمقام: کوٹواں، بنارس
  • تاریخ اشاعت: 26 نومبر 2022ء

زمرہ: احکام رضاعت  |  نکاح

جواب:

جب کوئی بچہ مدتِ رضاعت میں اپنی ماں کے علاوہ کسی بھی عورت کا دودھ پی لیتا ہے تو اس بچے پر اپنی رضاعی ماں، اس کا شوہر اور ان دونوں کے نسبی اور رضاعی اصول وفروع حرام ہوجاتے ہیں۔ صورتِ مسئلہ کے مطابق مقبول عالم نے اپنی سگی نانی (نور بی بی) کا دودھ مدتِ رضاعت میں پیا ہے تووہ اپنی نانی کا رضاعی بیٹا، اپنی خالہ کا رضاعی بھائی اور خالہ زاد کا رضاعی ماموں بن گیا ہے۔ جس طرح کوئی شخص اپنی نسبی بھانجی سے نکاح نہیں کر سکتا عین اسی طرح اپنی رضاعی بھانجی سے بھی نکاح نہیں کر سکتا بلکہ رضاعی بھانجی سے نکاح کرنا بھی فعلِ حرام ہے۔ نسبی بھانجی، رضاعی ماں اور رضاعی بہن کا حرام ہونا تو قرآن مجید سے ثابت ہے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ.

’’تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں (سب) حرام کر دی گئی ہیں۔‘‘

النساء، 4: 23

جس طرح نسب اور ولادت سے رشتے حرام ہوتے ہیں، فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق اسی طرح رضاعت سے بھی رشتے حرام ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ.

’’رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘

البخاري، الصحيح، كتاب الشهادات، باب الشهادة على الأنساب والرضاع المستفيض والموت القديم، 2: 935، الرقم: 2502، بيروت: دار ابن كثير اليمامة

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس ٹھہرے ہوئے تھے کہ میں نے ایک آواز سنی، کوئی شخص حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں آنا چاہتا تھا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض كيا: یا رسول اللہ! یہ شخص آپ کے حجرے میں آنے کی اجازت چاہتا ہے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ یہ فلاں شخص ہے جو حفصہ کا رضاعی (دودھ شریک) چچا ہے۔ حضرت عائشہ نے عرض كيا: یا رسول اللہ! اگر فلاں شخص زندہ ہوتا جو میرا رضاعی چچا تھا تو کیا وہ بھی میرے پاس آ سکتا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

نَعَمْ، إِنَّ الرَّضَاعَةَ تُحَرِّمُ مَا تُحَرِّمُ الْوِلَادَةُ.

’’ہاں، رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘

مسلم، الصحيح، كتاب الرضاع، باب يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة، 2: 1068، الرقم: 1444، بيروت: دار إحياء التراث العربي

مذکورہ بالا تصریحات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اب آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

1. اگر مقبول عالم نے واقعی اپنی سگی نانی کا دودھ مدتِ رضاعت میں پیا ہے تو اس کا اپنی رضاعی بھانجی سے نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا یعنی یہ نکاح باطل ہے۔ ایسی صورت میں ان دونوں کا بطور میاں بیوی رہنا حرام ہے۔

2. رضاعت ثابت ہو جانے کے بعد مقبول عالم اور اس کی رضاعی بھانجی کے درمیان تفریق لازم ہے۔ اگر وہ جدائی اختیار نہیں کرتے تو مزید فعلِ حرام کے مرتکب ہوتے رہیں گے۔ لہٰذا ان کی تفریق یعنی علیحدگی ضروری ہے۔

3. ان سے پیدا ہونے والے بچے حلالی نہیں ہیں اور نہ ہی ثابت النسب ہو گا۔ لیکن اب ان باتوں کو کریدنے کی بجائے، ان بچوں کی بہتر تعلیم وتربیت کا بندوبست کرنا مقبول عالم پر لازم ہے، اس لیے وہ ان بچوں کے لیے مال ہبہ یا وصیت کر دے تا کہ وہ سہولیات سے محروم نہ ہوں اور بے سہارا وبے بس ہو کر برائی میں ملوث نہ ہو جائیں۔

4. رضاعت ثابت ہو جانے کے بعد ان کی تفریق لازم ہے، اگر تفریق نہ ہوئی تو فعلِ حرام ہوتا رہے گا اور علم ہونے کے باوجود چھپائے رکھنے والے بھی اس فعلِ قبیح کے گناہ میں شریک ہوں گے۔ ان کے ہاں آنے جانے اور کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان سے قطع تعلق کرنا جائز ہے۔

5. رشتہ دار اور اہل علاقہ ان دونوں کو برے عمل سے آگاہ کر سکتے ہیں یا بذریعہ عدالت تفریق کرا سکتے ہیں لیکن خود سے ان پر کوئی سزا لاگو نہیں کر سکتے ہیں، اگر اس کے باوجود بھی وہ اکٹھے رہتے ہیں تو پھر باقی لوگ بری ہیں، انہیں پکڑ نہیں ہو گی کیونکہ وہ اپنی کوشش کر چکے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری