مخصوص فائدے کی شرط کیساتھ جانور حصے پر دینا کیسا ہے؟


سوال نمبر:5991
السلام علیکم! میرے ایک عزیز نے کسی شخص کو بھینس خرید کر دی اور اس سے یہ معاملہ طے کیا کہ وہ شخص بھینس کے چارہ اور رکھوالی کا بندوبست کرے گا اور دن میں دو کلو دودھ بھینس کے مالک کو دے گا، بقیہ دودھ جیسے چاہے استعمال کر سکتا ہے یا بیچ سکتا ہے۔ کیا ایسا معاملہ کرنا جائز ہے؟

  • سائل: ناصر محمودمقام: فیصل آباد
  • تاریخ اشاعت: 17 اکتوبر 2022ء

زمرہ: اجارہ /ٹھیکہ

جواب:

اجرت کی مذکورہ صورت جائز نہیں ہے کیونکہ اجرت کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ ممکن ہے کہ بھینس دودھ نہ دے یا دو کلو سے کم دے، یوں یہ معاملہ اجارہ کے اصول کے خلاف بنے گا۔ اس لیے اجرت کا طے ہونا ضروری ہے، اجرتِ مجہولہ کے ساتھ عقدِ اجارہ جائز نہیں ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ اسْتِئْجَارِ الْأَجِيرِ حَتَّى يُبَيَّنَ لَهُ أَجْرُهُ.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس وقت تک کسی شخص کو مزدوری پر رکھنے سے منع فرمایا ہے جب تک اس کی اجرت واضح نہ کر دی جائے۔‘‘

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 71، الرقم: 11694، مصر: مؤسسة قرطبة
  2. البيهقي، السنن، كتاب الإجارة، باب لا تجوز الإجارة حتى تكون معلومة وتكون الأجرة معلومة، 6: 120، الرقم: 11432، مكة المكرمة: مكتبة دار الباز

مذکورۃ الصدر حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ کسی شخص سے کام کروانے سے پہلے اس کی اجرت طے کرنا لازم ہے یہی وجہ ہے کہ اصولیین اور فقہاء کرام نے بھی عقد اجارہ کی شرائط میں بیان کیا ہے کہ اجرت کام کرنے سے پہلے معلوم ہونی چاہیے جیسا کہ مجلة الأحكام العدلية میں صحت اجارہ کی شرائط میں لکھا ہے:

يُشْتَرَطُ أَنْ تَكُونَ الْأُجْرَةُ مَعْلُومَةً.

’’ضروری ہے کہ اجرت معلوم ہو۔‘‘

لجنة مكونة من عدة علماء وفقهاء في الخلافة العثمانية، مجلة الأحكام العدلية، 1: 86، آرام باغ، كراتشي: نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب

لہٰذا آپ کے عزیز کا مذکورہ معاملہ جائز نہیں ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری