جواب:
مرحوم کے ترکہ سے اولاً اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات منہا کیے جائیں گے، قرض (اگر تھا تو اس کی) ادائیگی اور وصیت (اگر ہے تو اس مد میں زیادہ سے زیادہ ایک تہائی (1/3) سے اس کی) ادائیگی کے بعد بقیہ ترکہ ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔
مسئلہ مذکور کی نوعیت کے مطابق ورثاء میں بیوہ اور دو بھائی شامل ہیں۔ جو بہن اور بھائی پہلے فوت ہوچکے ہیں وہ وارث نہیں رہے اور نہ ان کی اولاد ان کے حصہ کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ مرحوم کے کُل قابلِ تقسیم ترکہ سے بیوہ کو چوتھا حصہ (1/4) ملے گا کیونکہ ان کی اولاد نہیں ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.
اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔
النساء، 4: 12
بیوہ کو چوتھا حصہ دینے کے بعد بقیہ تمام مال دونوں بھائیوں میں برابر تقسیم ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔