جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
1۔ والد، دادا اور اسی طرح اوپر جتنے بھی صُلبی رشتے ہیں ان کی منکوحات نیچے والے صُلبی رشتوں کے لیے محرمات ہیں ان کے ساتھ نکاح حرام ہے۔ قرآنِ مجید میں للہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلاً.
اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ دادا نکاح کر چکے ہوں مگر جو (اس حکم سے پہلے) گزر چکا (وہ معاف ہے)، بیشک یہ بڑی بے حیائی اور غضب (کا باعث) ہے اور بہت بری روِش ہے۔
النساء، 4: 22
اس لیے سوتیلی ماں محرم ہے، اس کے ساتھ نکاح حرام ہے اور وہ سوتیلی اولاد کے ساتھ رہ سکتی ہے۔
2۔ فوت شدہ کے ترکہ سے اولاً اس کے کفن دفن پر اٹھنے والے اخراجات منہاء کیے جاتے ہیں، اس کے بعد قرض (اگر ہو تو) کی ادائیگی اور وصیت (اگر کی ہو تو) پوری کرنے کے بعد ترکہ ورثاء میں تقسیم ہوتا ہے۔ اگر کسی وارث نے کفن و دفن کے اخراجات برضا و رغبت اپنی طرف سے کر دیئے ہیں اور وہ واپسی کا مطالبہ بھی نہیں کر رہا تو جائز ہے۔ اگر وہ اِن اخراجات کی واپسی کا مطالبہ کرے تو ترکہ میں سب سے پہلے یہ اخراجات ادا کیئے جائیں گے، بقیہ کُل قابلِ تقسیم ترکہ ورثاء میں تقسیم ہوگا۔
3۔ موحوم کی بیوی کل قابلِ تقسیم ترکہ میں آٹھویں (1/8) حصے کی حقدار ہے، قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.
اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔
النساء، 4: 12
مذکورہ آیتِ مبارکہ کے مطابق مرحوم کی بیوہ کل قابلِ تقسیم ترکہ میں سے آٹھویں حصے کی حقدار ہے اور باقی ترکہ مرحوم کی اولاد میں تقسیم ہوگا۔ جو جائیداد یا اشیاء مرحوم نے اپنی زندگی میں بیوی کو یا کسی بیٹے کو ہبہ کر کے ان کی ملکیت میں دے دی ہیں وہ ترکہ میں شامل نہیں ہوں گی اور نہ ان سے واپس لی جائیں گی۔
4۔ اگر مرحوم کی بیوہ کا یہ دعویٰ درست ہے کہ گاڑی خریدتے وقت دو لاکھ روپے اس نے ادا کیے تھے، تو یہ ایک طرح کا قرض ہے جو اُس نے گاڑی خریدنے کے لیے شوہر کو دیا تھا۔ اس صورت میں مرحوم ترکہ سے بیوہ کو اس کے حصے کے علاوہ قرض کی ادائیگی بھی کی جائے گی۔ مگر یہ تب ہوگا جب بیوہ کوئی تحریر ثبوت پیش کرے یا گواہ لائے، ورنہ اس کا دعویٰ تسلیم نہیں کیا جائے گا، اور بیوہ کو صرف آٹھواں حصہ ملے گا۔ وہ چاہے تو والدین کے ساتھ زندگی گزارے یا مرحوم کی اولاد کے ساتھ رہائش پذیر رہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔