سوال نمبر:5887
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم۔ اس حدیث کو تابعین و اتبع تابعین کے دور کے خیر ہونے کی دلیل بھی بنایا جاتا ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو اسی دور میں پہلے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی، ان کی شہادت میں بھی محمد بن ابی بکر جیسی جلیل القدر شخصیات بھی شامل تھیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بقیع شریف میں دفن بھی نہیں کرنے دیا گیا، حتی کہ ملحقہ ایک باغ میں دفن ہوئے، پھر جنگ جمل ہوئی، صفین ہوئی، مولا علی کی شہادت ہو گئی، امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی، انہیں بھی کسی نہ کسی نے تو حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں دفن ہونے سے روکا (اہل سنت کہتے ہیں کہ مروان نے روکا، اہل تشیع الزام لگاتے ہیں کہ ام المومنین نے روکا، بہرحال پھر سے فتنہ کھڑا ضرور ہوا)، پھر یزید تخت پر بیٹھا، امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی، پھر واقعہ حرہ جیسے واقعات، ان سب حالات میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں صحابہ کا خون بہہ گیا، پھر وہ وقت شروع ہوا کہ پہلے فقط خونِ عثمان کا مطالبہ کیا جاتا تھا لیکن پھر اس دور میں جا کر مولا علی رضی اللہ عنہ پر لعن طعن شروع کر دی گئی، حتی کہ عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے اس بدبختی کو ختم کروایا۔۔۔۔
میرے سوالات یہ ہیں کہ:
1: یہ سارا زمانہ خیر القرن کیسے ہو گیا؟؟؟؟ ہم اس حدیث کی شرح کیسے کر سکتے ہیں؟؟
2: ہم ہر خطبے میں سنتے ہیں کہ اصحابی کالنجوم۔۔۔۔۔ الی الآخر۔۔۔۔ تو اس روایت کا اطلاق مولا علی رضی اللہ عنہ کے مقابل آنے والے صحابہ پر کیسے کر سکتے ہیں؟ حالانکہ اجماع ہے کہ ان سے خطا ہوئی، حق صرف اور صرف مولا علی کی طرف تھا۔
3: اہل سنت کے کئی علماء جیسے ابن تیمیہ، ابن کثیر وغیرہ نے یزید کو کربلا سے بری الذمہ قرار دیا، البدایہ و النہایہ میں یہاں تک لکھا کہ وہ تو اہل بیت کے ساتھ ان کے سوگ میں شامل ہوا تھا، امام زین العابدین کو بہت سے تحائف دیئے تھے، اس کی آنکھیں اشکبار ہو گئی تھیں، ان سب کی کیا حقیقت ہے۔
براہ کرم میری راہنمائی فرما کر میری تشفی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا۔ والسلام
- سائل: محمد احمد رضامقام: اسلام آباد
- تاریخ اشاعت: 19 اکتوبر 2022ء
جواب:
رسول اللہ ﷺ کے فرمانِ عالی شان ’خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم‘
سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مبارک زمانے اور صحابہ و تابعین کے ادوار میں نیکی
کا غلبہ تھا۔ لوگ مجموعی طور پر سادہ اور نیکی پسند تھے۔ خیر و بھلائی کا رجحان غالب
تھا۔ اس سے قطعاً مراد یہ نہیں ہے کہ اُن زمانوں میں گناہ سرے سے سرزد نہیں ہوتے تھے
یا برائی کا تصور ہی نہیں تھا۔ جرائم اور گناہ بھی ہوتے تھے اور بدی بھی تھی مگر گناہ
و بدی مغلوب تھی، اس کا غلبہ نہ تھا۔ پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا تو نیکی اور سادگی
کے یہ جذبات مغلوب ہوتے گئے اور ان کی جگہ بدی، ظلم، جھوٹ اور منافقت وغیرہ جیسے قبیحہ
جذبات معاشرے پر غالب آ گئے۔ آج کے دور میں بھی اگر بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو گناہ
کا غلبہ ہے، گناہ کرنا آسان اور نیکی کرنا دشوار ہے۔ گناہ کا ارادہ کرتے ہی اسے پایۂ
تکمیل تک پہنچانے کے ہزار رستے کھل جاتے ہیں جبکہ نیکی کی راہ میں بیسیوں رکاوٹیں آتی
ہیں۔
علاوہ ازیں سائل نے جن تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے، یہ واقعات بلاشبہ رونما
ہوئے ہیں۔ یہ معلوم تاریخ کے واقعات ہیں اور اِن سے انکار و فرار ممکن نہیں ہے۔ سیدنا
علی کرم اللہ وجھہ الکریم حق پر تھے اور فرمانِ رسول ﷺ کے مطابق حق علیؑ کے ساتھ تھا
اور علیؑ حق کے ساتھ تھے۔ اس کے سوا جو کچھ تھا وہ افسوس ناک تھا جس نے مسلمانوں میں
فتنہ و منافرت کی ایسی آگ جلائی جو بجھائے نہیں بجھ رہی ہے۔ ضروری نہیں کہ ان واقعات
کا سبب بدنیتی ہو، ممکن ہے اِن واقعات کے کرداروں کا اصل مطمع نظر کچھ اور ہو جبکہ
اس کے نتائج مختلف وارد ہوئے ہوں۔ جو بھی مذکورہ واقعات کے تمام کردار خدا کی عدالت
میں پہنچ چکے ہیں، ہم ان کے پیچھے پہنچنے والے ہیں، اس عدالت سے جو بھی فیصلہ ہوگا
اس میں کسی سے ظلم و زیادتی نہیں ہوگی، وہاں دیکھیں گے کی کس نے کیا کیا اور اس کی
کیا سزا پائی۔ ان سب افسوسناک واقعات کے باوجود مجموعی طور پر معاشرے میں بدی غالب
نہیں تھی، بلکہ نیکی کا غلبہ تھا۔ اکثریت کے سینے کدورت، شقاوت اور سیاسی چلاکیوں سے
خالی تھے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کا مذکورہ فرمان اپنی جگہ درست مفہوم میں بیٹھتا ہے،
اس میں تشکیک بلاوجہ ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔