جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
1۔ شہدائے کربلا کا ہر سال سوگ نہیں منایا جاتا ہے بلکہ ان کی یاد میں غم کا اظہار کیا جاتا ہے۔ غم کا یہ اظہار رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔ ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا جوکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ اور رسول اللہ ﷺ کی چچی ہیں، ان سے مروی ہے کہ ایک روز وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر بولا کہ یارسول اللہ ﷺ آج میں نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ کیا خواب دیکھا ہے؟ ام فضل رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ سخت ڈراؤنا خواب ہے (نہ تو میں اس کو بیان کرنا پسند کرتی ہوں اور نہ آپ سن کر پسند فرمائیں گے)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (مجھے سناؤ تو سہی) وہ کیا ہے؟ حضرت امِ فضل نے عرض کیا: میں نے دیکھا کہ گویا آپ ﷺ کے جسمِ مبارک کا ایک ٹکڑا کاٹا گیا ہے اور میری گود میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم نے اچھا خواب دیکھا ہے۔ (اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ) ان شاءاللہ فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوگا جو تمہاری گود میں دیا جائے گا (کیونکہ خاندان کی عورتوں میں تمہارا رشتہ ہی بڑا ہے، تم اس لڑکے کی پرورش کرو گی اور تربیت کرو گی۔) چنانچہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا انہیں میری گود میں دے دیا گیا۔ پھر فرماتی ہیں:
فَدَخَلْتُ يَوْمًا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعْتُهُ فِي حِجْرِهِ، ثُمَّ حَانَتْ مِنِّي الْتِفَاتَةٌ، فَإِذَا عَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُهْرِيقَانِ مِنَ الدُّمُوعِ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي مَا لَكَ؟ قَالَ: أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ أُمَّتِي سَتَقْتُلُ ابْنِي هَذَا، فَقُلْتُ: هَذَا؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَأَتَانِي بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِهِ حَمْرَاءَ.
پھر ایک دن رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی اور (امام حسین علیہ السلام) کو آپ کی گود میں دے کر ذرا دوسری طرف متوجہ ہوگئی اور پھر (مڑ کر آپ کی طرف نظر اٹھائی تو) کیا دیکھتی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ کو کیا ہوا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ابھی میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے، انہوں نے مجھے بتایا کہ میری امت (میں سے ایک جماعت) میرے اس بیٹے کو قتل کر دے گی۔ میں نے پوچھا: کیا اِس بیٹے کو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، مجھے اس قتل گاہ کی زمین میں سے کچھ مٹی دی جو سرخ تھی۔
حاکم، المستدرک علیٰ الصحیحین، 3: 194، الرقم، 4818، بیروت، دار الکتب العلمیۃ
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے واقعہ کربلا کی خبر دیتے ہوئے آنسو بہائے، اس لیے آج بھی شہدائے کربلا کی یاد تازہ کی جاتی ہے، ان کی مظلومانہ شہادت پر غمگین ہوا جاتا ہے، آنسو بہائے جاتے ہیں اور ان کی شہادت کے مقاصد کو بیان کیا جاتا ہے جس میں سے کوئی شے بھی غیرشرعی یا ممنوع نہیں ہے۔
2۔ سوگ مرنے والے کے ورثاء تین دن تک اور اس کی بیوی چار ماہ دس دن تک کرتی ہے، پھر اس کی یاد تازہ کی جاسکتی ہے، اس کی یاد میں غمگین ہونا ممنوع نہیں ہے، اس کو یاد کرکے آنسو بہانے کی بھی ممانعت نہیں، لیکن اس کی بیوی نہ ہر سال عدتِ سوگ مناتی ہے اور نہ باقی ورثاء تین دن کے لیے کام کاج چھوڑ کر گھر بیٹھ کر تعزیت کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر سال شہدائے بدر و احد اور دیگر شہداء کرام کے دن منائے جاتے ہیں ان کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔ تاہم شہدائے کربلا کی داستانِ حریت و عزیمت نہایت المناک ہے۔ اس لیے شہدائے کربلا کی یاد تازہ کرنے کے لیے اس قدر اہتمام کی انفرادی وجوہات ہیں۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصنیف ’فلسفہ شہادتِ امام حسین‘ ملاحظہ کیجیے۔
3۔ کسی شخص کی سالگرہ یا برسی منانے کی شریعت میں اصلاً ممانعت نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ ہر پیر کو روزہ رکھتے تھے، جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے اسے اپنی ولادت سے منسوب کیا۔ اس لیے سالگرہ کی مناسبت سے کوئی تقریب کرنے میں بنیادی طور پر حرج نہیں۔ اسی طرح برسی منانا بھی شرعاً جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ شہدائے بدر کی یاد کے لیے ان کے مقابر پر تشریف لے جاتے تھے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: صالحین کے عرس منانے کا شرعی حکم کیا ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔