جواب:
روزہ بیاطیس کے مرض یعنی شوگر کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جبکہ عام لوگوں کو اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر شوگر کا مریض روزہ رکھ لے تو اسے کہیں پریشان کن حالت سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ بعض لوگ جسم میں پانی کی کمی یا شوگر لیول (Sugar Level) حد اعتدال سے گرنے کے احتمال کو اپنے ذہن پر سوار کر لیتے ہیں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ البتہ شدتِ مرض کی صورت میں صورت حال مختلف ہو سکتی ہے شدتِ مرض کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کی اللہ رب العزت نے اجازت دی ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے :
وَمَنْ کَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ يَامٍ اُخَرَط يُرِيْدُ اﷲُ بِکُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ.
البقرة، 2 : 185
’’اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہت۔‘‘
ماہرینِ طب کی رائے میں ایسے اشخاص جو روزہ دار نہ ہوں، کا شوگر لیول اتار چڑھاؤ کا شکار رہتا ہے جبکہ روزہ دار مریض کا شوگر لیول نارمل رہتا ہے کیونکہ روزہ مریض اور معالج کے لئے کسی قسم کی مشکلات یا پریشانی پیدا نہیں کرتا۔ مزید برآں اگر رمضان المبارک کے علاوہ بھی یہ طریقہ اپنایا جائے تو اس سے نہ صرف شوگر لیول کنٹرول ہوگا بلکہ شوگر لیول میں عدم تنظیم کی بناء پر جو نقاہت و کمزوری ہوا کرتی ہے۔ اس سے بھی محفوظ رہے گا روزہ کے سبب شوگر میں مبتلا شخص کی قوتِ مدافعت بڑھتی ہے لہٰذا اس سے شوگر کے باعث ہونے والی دماغی سوزش، کالا موتیا، اندھا پن، جگر اور گردوں کی خرابی کے خدشات بھی بڑی حد تک معدوم ہو جاتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔