جواب:
غصہ کی بعض حالتوں میں طلاق ہو یا کوئی اور معاملہ واقع نہیں ہوتا کیونکہ اسلام اور دنیا بھر کا قانون شدید غصہ کی حالت کو پاگل پن اور جنون قرار دیتا ہے اور مجنوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا۔ علامہ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن ابو بکر الزرعی الدمشقی بیان کرتے ہیں:
1. مَا يُزِيلُ الْعَقْلَ، فَلَا يَشْعُرُ صَاحِبُهُ بِمَا قَالَ، وَهَذَا لَا يَقَعُ طَلَاقُهُ بِلَا نِزَاعٍ.
ایک یہ کہ غصہ اتنا زیادہ ہو کہ عقل انسانی قائم نہ رہے اور پتہ ہی نہ ہو کہ اس نے کیا کہا۔ اس صورت میں بلا اختلاف تمام فقہاء کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی۔
2. مَا يَكُونُ فِي مَبَادِيهِ بِحَيْثُ لَا يَمْنَعُ صَاحِبَهُ مِنْ تَصَوُّرِ مَا يَقُولُ وَقَصْدِهِ، فَهَذَا يَقَعُ طَلَاقُهُ.
دوسرا غصہ ابتدائی درجہ کا ہے کہ انسان جو کہہ رہا ہوتا ہے وہ پوری طرح سمجھتا بھی ہے۔ اس میں طلاق ہو جاتی ہے۔
3. أَنْ يَسْتَحْكِمَ وَيَشْتَدَّ بِهِ، فَلَا يُزِيلُ عَقْلَهُ بِالْكُلِّيَّةِ، وَلَكِنْ يَحُولُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ نِيَّتِهِ بِحَيْثُ يَنْدَمُ عَلَى مَا فَرَطَ مِنْهُ إِذَا زَالَ، فَهَذَا مَحَلُّ نَظَرٍ، وَعَدَمُ الْوُقُوعِ فِي هَذِهِ الْحَالَةِ قَوِيٌّ مُتَّجِهٌ.
تیسرا درمیانہ درجہ کا غصہ ہے جو سخت ہوتا ہے اور وہ انسان کی عقل پر غالب آ جاتا ہے مگر انسانی عقل قائم رہتی ہے لیکن دل کی نیت وارادہ کے بغیرمحض شدتِ غصہ سے طلاق سرزد ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے آپ پر قابو نہیں پا رہا ہوتا۔ پھر طلاق سر زد ہونے کے بعد نادم ہوتا ہے اور افسوس کرتاہے۔ یہ صورت غور طلب ہے۔ اس حالت میں قوی اور معقول بات یہ ہے کہ طلاق نہ ہو گی۔
ابن قیم الجوزیة، زاد المعاد في هدي خیر العباد، 5: 215، بیروت، الکویت: مؤسسة الرسالة، مکتبة المنار
علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:
وَاَلَّذِي يَظْهَرُ لِي أَنَّ كُلًّا مِنْ الْمَدْهُوشِ وَالْغَضْبَانِ لَا يَلْزَمُ فِيهِ أَنْ يَكُونَ بِحَيْثُ لَا يَعْلَمُ مَا يَقُولُ بَلْ يُكْتَفَى فِيهِ بِغَلَبَةِ الْهَذَيَانِ وَاخْتِلَاطِ الْجَدِّ بِالْهَزْلِ كَمَا هُوَ الْمُفْتَى بِهِ فِي السَّكْرَانِ عَلَى مَا مَرَّ، وَلَا يُنَافِيهِ تَعْرِيفُ الدَّهَشِ بِذَهَابِ الْعَقْلِ فَإِنَّ الْجُنُونَ فُنُونٌ.
اور جو مجھ پر ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ مدہوش (دیوانہ) اور غضبناک ہونا، دونوں حال میں اس قدر لازم نہیں کہ آدمی اس حال کو پہنچ جائے کہ اپنی بات کو سمجھتا ہی نہ ہو، بلکہ اس قدر کافی ہے کہ اس کے کلام میں بیہودگی غالب ہو اور سنجیدگی ومزاح ملا جُلا ہو، جیسا کہ نشہ کرنے والے کے بارے میں مفتیٰ بہ بات گزر چکی ہے۔ یہ بات مدہوشی کی اس تعریف کے خلاف نہیں کہ جنون کی کئی اقسام ہیں۔
ابن عابدین، رد المحتار، 3: 244، بیروت: دار الفکر للطباعة والنشر
لہٰذا جو شدید غصہ میں ہو وہ ایک قسم کے وقتی مرض میں مبتلا ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں مریض کے بارے میں ہے:
وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ.
اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے۔
النور، 24: 61
مفسرین کرام اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
فَالْحَرَجُ مَرْفُوعٌ عَنْهُمْ فِي هَذَا.
جو مریض لوگ ہیں، مرض کی حالت میں ان سے حرج یعنی تنگی وگرفت اٹھالی گئی ہے۔
علامہ قرطبی مزید بیان کرتے ہیں:
فَبَيَّنَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: أَنَّهُ لَا حَرَجَ عَلَى الْمَعْذُورِينَ.
اس آیت مبارکہ نے واضح کر دیا کہ معذور لوگوں پر کوئی گرفت نہیں ہے۔
القرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 8: 226
دوسری آیت کریمہ میں ہے:
وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ.
اور اس (اللہ تعالیٰ) نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔
الحج، 22: 78
امام ابو بکر احمد بن علی الرازی الجصّاص الحنفی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما: مِنْ ضِيقٍ وَكَذَلِكَ، قَالَ مُجَاهِدٌ رضی اللہ عنہ : وَيُحْتَجُّ بِهِ فِي كُلِّ مَا اُخْتُلِفَ فِيهِ مِنْ الْحَوَادِثِ أَنَّ مَا أَدَّى إلَى الضِّيقِ فَهُوَ مَنْفِيٌّ وَمَا أَوْجَبَ التَّوْسِعَةَ فَهُوَ أَوْلَى وَقَدْ قِيلَ وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ أَنَّهُ مِنْ ضِيقٍ لَا مَخْرَجَ مِنْهُ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حرج کا مطلب ہے تنگی۔ اور اسی طرح (ان کے شاگرد) حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس آیت کریمہ سے مختلف حوادث و واقعات میں یہ دلیل پکڑی جاسکتی ہے کہ جو حکم تنگی پیدا کرے اس کا وجود نہیں اور جو فراخی وآسانی پیداکرے وہی بہترہے۔ آیت کریمہ کا مطلب ہے کہ دین میں کوئی ایسی تنگی نہیں جس سے چھٹکارے کا راستہ نہ ہو۔
الجصّاص، أحکام القرآن، 5: 90، بیروت: دار إحیاء التراث العربي
امام قاضی بیضاوی فرماتے ہیں:
ضِیقٌ بِتَكْلِیْفِ مَایَشْتَدُّ الْقِیَامُ بِهِ عَلَیْكُمْ.
تنگی، ایسی تکلیف کا حکم ہے جس پر قائم رہنا تم پر سخت (مشکل) ہو۔
دیگر مفسرین نے بھی اس آیت مبارکہ میں حرج کا معنی تنگی ہی کیا ہے۔ حدیث مبارکہ میں بھی حرج کا معنی تنگی ہی بیان کیا گیا ہے:
عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا ، أَنَّهَا سَأَلَتِ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَنْ هَذِهِ الْآیَةِ (وَمَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ) [الحج، 22: 78] قَالَ: الضِّیقُ.
(هَذَا حَدِیثٌ صَحِیحُ الْإسْنَادِ وَلَمْ یُخْرِجَاهُ)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت مبارکہ (وَمَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ) کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: الضیق (تنگی)۔
امام حاکم فرماتے ہیں:
(اس حدیث مبارکہ کی اسناد صحیح ہیں لیکن اس کو بخاری ومسلم نے روایت نہیں کیا)
الحاكم، المستدرك علی الصحیحین، كتاب التفسير، تفسير سورة الحج، 2: 424، الرقم: 3477، بیروت: دار الكتب العلمية
ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہے کہ بچہ سمجھدار ہونے تک، سونے والا بیدار ہونے تک اور مجنوں عقلمند ہونے تک شریعت کے مکلف نہیں ہوتے:
عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنِ النَّائِمِ حَتَّی یَسْتَیْقِظَ وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّی یَحْتَلِمَ وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّی یَعْقِلَ.
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین قسم کے لوگوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے۔ بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے اور مجنوں جب تک عقلمند نہ ہو جائے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنِ النَّائِمِ حَتَّی یَسْتَیْقِظَ وَعَنِ الْمُبْتَلَی حَتَّی یَبْرَأَ وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّی یَكْبُرَ.
تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیا جاتا ہے۔ ایک سوئے ہوئے سے جب تک بیدار نہ ہوجائے۔ دوسرے دیوانے سے جب تک دیوانگی نہ جائے۔ تیسرے بچے سے جب تک بالغ نہ ہوجائے۔
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ کو چند الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ محدثین کرام کی کثیر تعداد نے نقل کیا ہے۔ لہٰذا وقتی مجنوں کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی خواہ غصہ کی وجہ سے ہو یا کسی اور وجہ سے کیونکہ اس وقت وہ مرفوع القلم ہوتا ہے۔ احادیث مبارکہ سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
كُلُّ طَلَاقٍ جَائِزٌ، إِلَّا طَلَاقَ المَعْتُوهِ المَغْلُوبِ عَلَى عَقْلِهِ.
ہر طلاق نافذ ہوتی ہے سوائے مدہوش کی (دی ہوئی) طلاق کے جس کی عقل پر غصہ غالب ہو۔
الترمذي، السنن، كتاب الطلاق واللعان، باب ما جاء في طلاق المعتوه، 3: 496، الرقم: 1191
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
كُلُّ طَلَاقٍ جَائِزٌ إِلَّا طَلَاقَ الْمَعْتُوهِ.
ہر طلاق نافذ ہوتی ہے سوائے مدہوش (کی دی ہوئی) طلاق کے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
لَا طَلَاقَ، وَلَا عَتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ.
شدید غصہ میں نہ طلاق ہے نہ ہی غلام آزاد کرنا۔
حضرت علامہ بدر الدین العینی اپنی کتاب عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں:
وَالحَدِیثُ أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ وَاسْتَدْرَکَهُ الْحَاکِمُ وَقَالَ صَحِیْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ أَخْرَجُوهُ مِنْ حَدِیْثِ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا وَ قَالَ أَبُو دَاوُد الْغِلَاقُ أَظُنُّهُ فِي الْغَضَبِ.
اس حدیث کو ابو داود، ابن ماجہ اور مستدرک میں حاکم نے ذکر کیا ہے اور کہا کہ مسلم کی شرط پر صحیح ہے ان سب نے اسے حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے لیا ہے اور ابو داود نے فرمایا کہ میرے خیال میں الغلاق سے غصہ مراد ہے۔
عیني، عمدة القاري، 23: 197، بیروت: دار إحیاء التراث العربي
فقہاء کرام کے نزدیک شدید غصہ میں دی جانے والی طلاق کی شرعی حیثیت درج ذیل ہے:
وَأَرَادَ بِالْمَجْنُونِ مَنْ فِيْ عَقْلِهِ اخْتِلَالٌ، فَیَدْخُلُ الْمَعْتُوهُ وَأَحْسَنُ الْأَقْوَالِ فِيْ الْفَرْقِ بَیْنَهُمَا أَنَّ الْمَعْتُوهَ هُوَ الْقَلِیلُ الْفَهْمِ الْمُخْتَلِطُ الْكَلَامِ الْفَاسِدُ التَّدْبِیرِ لَكِنْ لَا یَضْرِبُ وَلَا یَشْتُمُ بِخِلَافِ الْمَجْنُونِ وَیَدْخُلُ الْمُبَرْسَمُ، وَالْمُغْمَی عَلَیْهِ وَالْمَدْهُوشُ.
جنون (پاگل پن) کا مطلب ہے کسی کی عقل میں خرابی و خلل آنا، اس میں معتوہ شامل ہے، دونوں میں فرق کرنے میں بہترین قول یہ ہے کہ معتوہ کا مطلب ہے کم فہم، جس کی گفتگو میں غلط اور صحیح خلط ملط ہو لیکن معتوہ (مغلوب الغضب) نہ مارتا ہے نہ گالی گلوچ بکتا ہے، بخلاف مجنوں (پاگل) کے اس میں سرسام والا، بیہوش اور مدہوش داخل ہیں۔
ابن نجیم الحنفی، البحرالرائق، 3: 268، بیروت: دارالمعرفة
فَاَلَّذِيْ یَنْبَغِيَ التَّعْوِیلُ عَلَیْهِ فِيْ الْمَدْهُوشِ وَنَحْوِهِ إنَاطَةُ الْحُكْمِ بِغَلَبَةِ الْخَلَلِ فِيْ أَقْوَالِهِ وَأَفْعَالِهِ الْخَارِجَةِ عَنْ عَادَتِهِ، وَكَذَا یُقَالُ فِیمَنْ اخْتَلَّ عَقْلُهُ لِكِبَرٍ أَوْ لِمَرَضٍ أَوْ لِمُصِیبَةٍ فَاجَأَتْهُ: فَمَا دَامَ فِيْ حَالِ غَلَبَةِ الْخَلَلِ فِيْ الْأَقْوَالِ وَالْأَفْعَالِ لَا تُعْتَبَرُ أَقْوَالُهُ وَإِنْ كَانَ یَعْلَمُهَا وَیُرِیدُهَا لِأَنَّ هَذِہِ الْمَعْرِفَةَ وَالْإِرَادَةَ غَیْرُ مُعْتَبَرَةٍ لِعَدَمِ حُصُولِهَا عَنْ الْإِدْرَاكِ صَحِیْحٌ كَمَا لَا تُعْتَبَرُ مِنْ الصَّبِیِّ الْعَاقِلِ.
مدہوش وغیرہ کی قابل اعتماد بات یہ ہے کہ اس صورت میں حکم شرعی کا مدار اس کے اقوال و افعال میں عادت سے ہٹ کر اور اس کے خلاف بیہودگی و خرابی پائی جانے سے ہے یوں جس کی عقل میں بڑھاپے، بیماری اور کسی اچانک مصیبت کی بنا پر خلل آ جائے تو اس کے اقوال وافعال پر جب تک یہ کیفیت غالب رہے گی، اس کی باتوں کا اعتبار نہ ہو گا۔ اگرچہ ان کو جانتا ہو اور ان کا ارادہ کرے کیونکہ یہ جاننا اور ارادہ کرنا معتبر نہیں اس لیے کہ ادراک صحیح سے حاصل نہیں ہوا جیسے عقلمند بچے کی بات کا اعتبار نہیں۔
عبدالرحمن الجزیری ''الفقہ علی المذاہب الأربعۃ'' میں لکھتے ہیں:
وَالتَّحْقِیْقُ عِنْدَ الْحَنَفِیَّةِ أَنَّ الْغَضْبَانَ الَّذِيْ یُخْرِجُه، غَضْبُه، عَنْ طَبِیْعَتِهِ وَعَادَتِهِ بِحَیْثُ یَغْلِبُ الْهِذْیَانُ عَلَی أَقْوَالِهِ وَأَفْعَالِهِ فَإِنَّ طَلَاقَه، لَایَقَعُ، وَإِنْ كَانَ یَعْلَمْ مَا یَقُوْلُ وَیَقْصُدُه، لِأَنَّه، یَكُوْنُ فِيْ حَالَةِ یَتَغَیَّرُ فِیْهَا إِدْرَاكُه فَلَایَكُوْنُ قَصْدُه، مَبْنِیًّا عَلَی إِدْرَاكٍ صَحِیْحٍ، فَیَكُوْنُ كَالْمَجْنُوْنِ، لِأَنَّ الْمَجْنُونَ لَایَلْزَمُ أَنْ یَكُوْنَ دَائِمًا فِيْ حَالَةٍ لَایَعْلَمُ مَعَهَا مَا یَقُوْلُ: فَقَدْ یَتَكَلَّمُ فِيْ كَثِیْرِ مِنَ الْأَحْیَانِ بِكَلَامٍ مَعْقُوْلٍ، ثُمَّ لَمْ یَلْبِثْ أَنْ یَّهْذِيَ.
حنفیہ کے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ وہ غصہ والاشخص جسے اس کاغصہ اس کی طبیعت اور عادت سے اس طرح باہر کردے کہ اس کی باتوں اور اس کے کاموں پر بے مقصدیت غالب آ جائے اس کی طلاق واقع نہ ہوگی، اگرچہ وہ جانتا ہو کہ وہ کیا کہہ رہاہے اور ارادہ سے ہی کہتا ہو کیونکہ وہ ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ جس میں اس کا ادراک یعنی سوجھ بوجھ میں تغیر اور تبدیلی آ جاتی ہے لہٰذا اس کا قصد و ارادہ صحیح شعور و صحیح ادراک پر مبنی نہیں ہوتا، پس وہ (مجنوں و دیوانہ تو نہیں ہوتا لیکن وقتی طور پر) مجنوں کی طرح ہو جاتا ہے، کیونکہ ضروری نہیں کہ مجنوں ہمیشہ ویسی حالت میں رہے کہ جو کہے اسے اس کاپتہ نہ ہو بلکہ بعض اوقات میں وہ معقول (عقل مندوں کی طرح) باتیں کرتا ہے، پھر اوٹ پٹانگ مارنا شروع کر دیتا ہے۔
عبد الرحمن الجزیري، كتاب الفقه علی المذاهب الأربعة، 4: 294۔ 295، بیروت، لبنان: داراحیاء التراث العربي
شیخ الاسلام امام احمد رضا خاں حنفی قادری رحمۃ اللہ علیہ بھی فرماتے ہیں:
غضب اگر واقعی اس درجہء شدّت پر ہو کہ حدِّ جنون تک پہنچا دے تو طلاق نہ ہو گی۔
امام أحمد رضا، فتاوی رضویه، 12: 378، مسئله: 146، لاهور: رضا فاؤنديشن
امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرّہ کے خلیفہ وتلمیذ خاص علامہ امجد علی اعظمی مرحوم اپنی شہرہ آفاق کتاب میں لکھتے ہیں:
’’یونہی اگر غصہ اس حد کا ہو کہ عقل جاتی رہے تو (طلاق) واقع نہ ہو گی۔‘‘
أمجد علي، بهار شریعت، 8: 7، طبع لاهور
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ شدید غصہ کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی جیسا کہ مکمل وضاحت بیان کر دی گئی ہے۔ آپ کے بیان کے مطابق انتہائی شدید غصہ کی وجہ سے وقتی طور پر آپ کی عقل زائل ہو گئی تھی اور آپ کی زوجہ نے بھی اس بیان کی تصدیق کی ہے۔ اگر واقعی آپ کے غصہ کی کیفیت بیان کی گئی صورتحال کے مطابق تھی تو ایسی صورت میں ایک بھی طلاق واقع نہیں ہوئی، لہٰذا آپ پہلے کی طرح بطور میاں بیوی رہ سکتے ہیں لیکن آئندہ کے لئے ایسے الفاظ بولنے سے احتیاط کریں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔