جواب:
صورتِ مسئلہ کے مطابق مذکورہ خاتون کے سابق شوہر نے قرآن کریم، تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عقلِ سلیم کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔ ایسی صورت میں جس عدالت یا کونسل نے بھی خاتون کو اس کا حق دیا ہے، اس کے فیصلے میں قرآن و سنت کی تعلیمات اور فقہی اصولوں سے کوئی ٹکراؤ نہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے کہ زوجین اچھے طریقے سے بغیر ظلم و زیادتی کے ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکیں تو فبہا ورنہ خوش اسلوبی علیحدگی اختیار کر لیں۔ ارشاد ہے:
الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ.
طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔
[البقرة، 2: 229]
نیز بیویوں کو ضرر و اذیت دیتے ہوئے اپنے پاس روکے رکھنے سے منع کیا ہے، ارشاد ہے:
وَلاَ تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لَّتَعْتَدُواْ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ.
اور انہیں محض تکلیف دینے کے لئے نہ روکے رکھو کہ (ان پر) زیادتی کرتے رہو، اور جو کوئی ایسا کرے پس اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا۔
[البقرة، 2: 231]
اس لیے حاکم و عدالت مسلم ہو یا غیر مسلم، جرگہ ہو یا پنچائیت، کوئی بھی با اختیار شخص ہو یا ادارہ اس اسلامی حکم پر عمل درآمد کرے تو اسلام کا تقاضہ پورا ہو جائے گا۔ اس لیے ڈنمارک کے حکومتی ادارے Kommune یعنی یونین کونسل کا فیصلہ درست ہے کیونکہ جب شوہر حقوق پورے کرنے سے قاصر ہو اور بیوی پر ظلم و تشدد کرتا ہے تو اسلام کا یہی تقاضا ہے کہ اُن کے درمیان علیحدگی کر دی جائے۔ اگر شوہر عدالت یا جرگہ میں آ کر دستخط نہ بھی کرے تو ایسی صورت میں مجاز اتھارٹی یکطرفہ تنسیخ نکاح بھی کر سکتی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔