جواب:
آپ کے سوال کے جواب کی طرف آنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ صاحبِ ترتیب کس شخص کو کہتے ہیں؟ اور صاحبِ ترتیب کی ترتیب کب ساقط ہوتی ہے؟ یعنی کوئی شخص کب صاحبِ ترتیب ہوتا ہے اور صاحبِ ترتیب نہیں رہتا۔ اس حوالے سے امام ابوالحسن علی بن ابو بکر المرغینانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَلَوْ فَاتَتْهُ صَلَوَاتٌ رَتَّبَهَا فِي الْقَضَاءِ كَمَا وَجَبَتْ فِي الْأَصْلِ؛ لِأَنَّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ شُغِلَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ فَقَضَاهُنَّ مُرَتِّبًا ثُمَّ قَالَ صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي. إلَّا أَنْ تَزِيدَ الْفَوَائِتُ عَلَى سِتِّ صَلَوَاتٍ؛ لِأَنَّ الْفَوَائِتَ قَدْ كَثُرَتْ فَيَسْقُطُ التَّرْتِيبُ فِيمَا بَيْنَ الْفَوَائِتِ نَفْسِهَا، كَمَا سَقَطَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْوَقْتِيَّةِ، وَحَدُّ الْكَثْرَةِ أَنْ تَصِيرَ الْفَوَائِتُ سِتًّا لِخُرُوجِ وَقْتِ الصَّلَاةِ السَّادِسَةِ ، وَهُوَ الْمُرَادُ بِالْمَذْكُورِ فِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ وَهُوَ قَوْلُهُ : وَإِنْ فَاتَتْهُ أَكْثَرُ مِنْ صَلَاةِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ أَجْزَأَتْهُ الَّتِي بَدَأَ بِهَا؛ لِأَنَّهُ إذَا زَادَ عَلَى يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ تَصِيرُ سِتًّا وَعَنْ مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ أَنَّهُ اعْتَبَرَ دُخُولَ وَقْتِ السَّادِسَةِ ، وَالْأَوَّلُ هُوَ الصَّحِيحُ لِأَنَّ الْكَثْرَةَ بِالدُّخُولِ فِي حَدِّ التَّكْرَارِ وَذَلِكَ فِي الْأَوَّلِ.
اور اگر کسی کی کئی نمازیں فوت ہو گئی ہوں تو قضاء کرتے وقت ان کو ترتیب وار قضاء کرے، جیسے اصل میں واجب ہوئیں۔ کیونکہ آقا علیہ السلام جنگ خندق کے دن چار نمازوں میں مصروف رہے تو آپ علیہ السلام نے اُن کو ترتیب وار قضاء کیا۔ پھر فرمایا: جیسے تم مجھے پڑھتا دیکھ رہے ہو اسی طرح تم بھی پڑھو۔ ہاں اگر فوت شدہ نمازیں چھ سے زائد ہو جائیں تو پھر ترتیب ساقط ہو جائے گی۔ جیسے فوت شدہ اور وقتی نماز کی ترتیب ختم ہو جائے گی۔ حد کثرت یہ ہے کہ چھ نمازیں قضاء ہو جائیں یعنی چھٹی کا وقت نکل جائے اور یہی جامع صغیر میں ہے۔ اگر اس سے دن رات کی نمازوں سے زیادہ فوت ہو گئیں تو جائز ہو جائے گی وہ نماز جس سے ابتداء کی تھی کیونکہ جب ایک دن رات پر زیادہ ہوئیں تو چھ ہو جائیں گی۔ اور امام محمد رحمہ اﷲ سے یہ بھی روایت ہے کہ چھٹی کا وقت شروع ہوتے ہی ترتیب ختم ہو جائے گی۔ قولِ اوّل ہی صحیح ہے۔ کیونکہ کثرت تو حد تکرار میں داخل ہونے سے ہوتی ہے اور یہ پہلے قول پر ہوگا۔
المرغیناني، الهدایة شرح البدایة، 1: 72،73، المکتبة الاسلامیة
محمد امین بن عمر المعروف بہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ صاحب ترتیب کی ترتیب ساقط ہونے کی حد چھ نمازیں شمار کرتے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے فتاوی شامی میں فرمایا ہے:
يَسْقُطُ التَّرْتِيبُ بِصَيْرُورَةِ الْفَوَائِتِ سِتًّا وَلَوْ كَانَتْ مُتَفَرِّقَةً.
فوت شدہ نمازوں کی تعداد چھ تک پہنچ جائے تو ترتیب ساقط ہو جاتی ہے، اگرچہ متفرق نمازیں قضا ہو چکی ہوں۔
ابن عابدين شامي، رد المحتار، مطلب في تعريف الإعادة، 2: 68، بيروت: دار الفكر
صاحبان فتاوی ہندیہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں:
وَيَسْقُطُ التَّرْتِيبُ عِنْدَ كَثْرَةِ الْفَوَائِتِ وَهُوَ الصَّحِيحُ... وَحَدُّ الْكَثْرَةِ أَنْ تَصِيرَ الْفَوَائِتُ سِتًّا بِخُرُوجِ وَقْتِ الصَّلَاةِ السَّادِسَةِ... التَّرْتِيبُ إذَا سَقَطَ بِكَثْرَةِ الْفَوَائِتِ ثُمَّ قَضَى بَعْضَ الْفَوَائِتِ وَبَقِيَتْ الْفَوَائِتُ أَقَلَّ مِنْ سِتَّةٍ الْأَصَحُّ أَنَّهُ لَا يَعُودُ... وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى، حَتَّى لَوْ تَرَكَ صَلَاةَ شَهْرٍ فَقَضَاهَا إلَّا صَلَاةً وَاحِدَةً ثُمَّ صَلَّى الْوَقْتِيَّةَ وَهُوَ ذَاكِرٌ لَهَا جَازَ.
فوت شدہ نمازوں کی تعداد بڑھ جانے سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے اور یہ صحیح قول ہے۔۔۔ اور کثرت کی حد یہ ہے کہ فوت شدہ نمازیں چھ ہو جائیں، جب چھٹی نماز کا وقت گزر جائے۔۔۔ جب فوت شدہ نمازوں کی کثرت سے ترتیب ساقط ہو جائے، پھر بعض کی قضا لائے اور چھ سے کم نمازیں باقی رہ جائیں تو صحیح قول کے مطابق ترتیب نہیں لوٹتی۔۔۔ اسی پر فتویٰ ہے، یہاں تک کہ اگر اس نے پورا مہینہ نماز نہیں پڑھی، پھر ایک نماز کے سوا سب نمازوں کی قضا لائے، پھر وقتی نماز پڑھ لے اور اس کو یہ قضا نماز یاد تھی، پھر بھی جائز ہے۔
الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 1: 123، بيروت: دار الفكر
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ صاحبِ ترتیب اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے ذمے زیادہ سے زیادہ چھ نمازیں قضا ہوں، اگر چھٹی نماز کا وقت گزر جائے تو ترتیب ساقط ہو جاتی ہے۔
اب سائل کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
1۔ جب سائل نے چھ نمازیں چھوڑیں تو سائل صاحبِ ترتیب نہیں رہا، جیسا کہ آئمہ کی عبارتیں اس پر دلیل ہیں۔ اس لیے سائل قضاء نمازیں ادا کیے بغیر وقتی نماز ادا کر سکتا ہے اور فوت شدہ نمازیں بعد میں پڑھ سکتا ہے۔
2۔ سائل کی ترتیب چونکہ ساقط ہوچکی ہے اس لیے اب اسے صاحبِ ترتیب نہیں کہا جائے گا۔ اگر سائل چھٹی نماز کے وقت میں فوت شدہ نمازوں کی قضا کر لیتا تو دوبارہ سے صاحبِ ترتیب بن جاتا، لیکن اب سائل صاحبِ ترتیب نہیں رہا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔