جواب:
جن فقہاء کرام کی رائے کے مطابق وسعت و آسانی رکھنے والے شخص پر قربانی واجب ہوتی ہے، ہماری رائے بھی انہی کے مطابق ہے۔ اس مؤقف پر دلیل درج ذیل حدیث مبارکہ ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ، وَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس میں طاقت ہو اور پھر وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہمارے مصلے کے پاس نہ آئے۔
اس حدیث مبارکہ کے مطابق ضروریاتِ اصلیہ کے علاوہ وسعت وآسانی رکھنے والے شخص پر قربانی واجب ہوتی ہے یعنی جس کے پاس گھریلوں ضروریات کے علاوہ اس قدر مال موجود ہو کہ وہ قربانی کا جانور خرید سکے تو اس پر قربانی واجب ہے۔ علامہ محمد بن علی المعروف علاء الدین حصکفی کسی شخص پر قربانی واجب ہونے کی تین شرائط لکھتے ہیں:
الْإِسْلَامُ وَالْإِقَامَةُ وَالْيَسَارُ الَّذِي يَتَعَلَّقُ بِهِ وُجُوبُ صَدَقَةِ الْفِطْرِ.
مسلمان ہونا، مقیم ہونا اور ایسی خوشحالی ہونا جس کے ساتھ صدقہ فطر کا وجوب متعلق ہوگا۔
حصكفي، الدرالمختار، باب جناية البهيمة، 6: 312، بيروت: دار الفكر
امام محمد امین بن عمر المعروف علامہ شامی خوشحالی کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
بِأَنْ مَلَك مِائَتَيْ دِرْهَمٍ أَوْ عَرْضًا يُسَاوِيهَا غَيْرَ مَسْكَنِهِ وَثِيَابِ اللُّبْسِ أَوْ مَتَاعٍ يَحْتَاجُهُ إلَى أَنْ يَذْبَحَ الْأُضْحِيَّةَ وَلَوْ لَهُ عَقَارٌ يَسْتَغِلُّهُ فَقِيلَ تَلْزَمُ لَوْ قِيمَتُهُ نِصَابًا، وَقِيلَ لَوْ يَدْخُلُ مِنْهُ قُوتُ سَنَةٍ تَلْزَمُ، وَقِيلَ قُوتُ شَهْرٍ، فَمَتَى فَضَلَ نِصَابٌ تَلْزَمُهُ. وَلَوْ الْعَقَارُ وَقْفًا، فَإِنْ وَجَبَ لَهُ فِي أَيَّامِهَا نِصَابٌ تَلْزَمُ.
اس کی یہ صورت ہے کہ وہ دو سو درہم کا مالک ہو یا ایسے سامان کا مالک ہو جو اس کے دو سو درہم کے مساوی ہو اس یہ اس کی رہائش، لباس کے کپڑے، یا اس سامان کے علاوہ ہو جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ قربانی ذبح کر دے۔ اگر اس کی جائیداد ہو جس سے منافع حاصل کرتا ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے: اس پر قربانی لازم ہو گی اگر اس منافع کی قیمت نصاب تک پہنچتی ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے: اگر اس جائیداد سے سال بھر کی خوراک حاصل ہوتی ہو تو قربانی لازم ہو گی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے: اگر ماہ بھر کی خوراک حاصل ہوتی ہو تو قربانی لازم ہو گی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے: جب نصاب بھر مال بچ جائے تب قربانی لازم ہو گی۔ اگر جائیداد وقف ہو، اگر قربانی کے دنوں میں نصاب ثابت ہو تو قربانی لازم ہو گی۔
ابن عابدين شامي، رد المحتار، كتاب الأضحية، 6: 312، بيروت: دار الفكر
علامہ زین الدین بن ابراہیم المعروف امام ابن نجیم فرماتے ہیں:
وَلَوْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ يَدْخُلُ عَلَيْهِ مِنْهَا قُوتُ السَّنَةِ فَعَلَيْهِ الْأُضْحِيَّةُ حَيْثُ كَانَ الْقُوتُ يَكْفِيهِ وَيَكْفِي عِيَالَهُ، وَإِنْ كَانَ لَا يَكْفِيهِ فَهُوَ مُعْسِرٌ.
اگر کسی کے پاس ایسی زمین ہو جس سے اس کو ایک سال کا پورا خرچ حاصل ہوتا ہو اس پر قربانی واجب ہے اگر یہ خرچ اس کے اور اس کے اہل وعیال کے لیے کافی ہو اور اگر کافی نہ ہو تو وہ تنگدست ہے۔
ابن نجيم، البحر الرائق، كتاب الأضحية، 8: 198، بيروت: دار المعرفة
مذکورہ بالا تصریحات کے مطابق جس زمین سے سال بھر یا مہینے کی خوراک حاصل ہوتی ہے اس زمین کے مالک پر قربانی لازم ہے۔ ایسے شخص کے پاس اگر ان دو پلاٹوں کے علاوہ ایام قربانی میں جانور خریدنے کے لیے مال نہ ہو تو قربانی واجب نہ ہوگی۔ محض قربانی کا جانور خریدنے کے لیے پلاٹ فروخت کرنا لازم نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔