جواب:
’مِرحا‘ عربی قواعد کے اعتبار سے کوئی لفظ نہیں ہے، بلکہ یہ ’مِرحہ‘ ہوسکتا ہے۔ عربی زبان میں مَرِحُ اسم ہے جس کا معنیٰ ہے غایت درجہ خوشی، مستی و شادمانی، اتراہٹ اور اکڑ وغیرہ۔ جیسے قرآنِ مجید میں ہے:
وَلاَ تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً.
اور زمین میں اکڑ کر مت چل، بیشک تو زمین کو (اپنی رعونت کے زور سے) ہرگز چیر نہیں سکتا اور نہ ہی ہرگز تو بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے (تو جو کچھ ہے وہی رہے گا)۔
بَنِيْ إِسْرَآءِيْل، 17: 34
عربی میں خشک انگوروں کے ڈھیر کو بھی مَرْحَةُ کہا جاتا ہے۔ گویا مِرحه غرور و تکبر اور غیرمفید اناج کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، فلھٰذا اِس کی بجائے کوئی اچھا اور بامعنیٰ نام رکھا جائے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے با معنی اور اچھا نام رکھنے کا حکم دیا ہے۔ امام طوسی روایت کرتے ہیں:
جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ یَارَسُوْلَ ﷲِ مَا حَقَّ إِبْنِيْ هٰذَا؟ قَالَ (صلی الله علیه وآله وسلم) تَحَسَّنَ إِسْمُهٗ وَأدَّبَهٗ وَصَنَعَهٗ مَوْضِعاً حَسَناً.
ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) میرے اس بچے کا مجھ پر کیا حق ہے؟ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا: تو اس کا اچھا نام رکھ، اسے آداب سکھا اور اسے اچھی جگہ رکھ (یعنی اس کی اچھی تربیت کر)۔
محمد بن أحمد صالح، الطفل في الشریعة الاسلامیة: 74، مصر: قاهرة
اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّکُمْ تُدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ بِأَسْمَائِکُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِکُمْ فَأَحْسِنُوا أَسْمَائَکُمْ.
روزِ قیامت تم اپنے ناموں اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے اس لیے اپنے نام اچھے رکھا کرو۔
مذکورہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف اچھے ناموں کو پسند فرمایا بلکہ اچھے نام رکھنے کا حکم بھی دیا اور اسے بچے کا پیدائش کے بعد اولین حق قرار دیا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔