قبضہ کے بغیر کسی شے کی فروخت (Dropshipping) کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:5801
جناب ہم نے اور بہت سے لوگوں نے ویب سائٹس بنا رکھی ہیں جن پر نامور اور مقبول ترین کمپنیوں کی اشیاء کی تشہیر کرتے ہیں جبکہ وہ اشیاء ہمارے قبضہ یا ملکیت میں نہیں ہوتیں اور جب کوئی خریدار ہمارا اشتہار دیکھ کر ہم سے کسی مشتہر چیز کا مطالبہ کرتا ہے تو ہم اسے وہ چیز قابل اعتماد ہول سیلرز سے نقد ادائگی پر لے کر گاہگ کو پہنچا دیتے ہیں۔ گاہگ کو ارسال کرنے سے پہلے ہم خود اس چیز کی مکمل جانچ پرتال کرتے ہیں تاکہ گاہگ تک عین اشتہار کے مطابق چیز پہنچے۔ تمام مزکورہ بالا قوائد کی پابندی کے باوجود بھی گاہگ کے پاس اس چیز کو رد کرنے کا اختیار محفوظ رہتا ہے۔ جیسا کہ شریعت مطہرہ کسی مال کو ملکیت میں لیئے بغیر فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا مزکورہ بالا کام بھی نا جائز ہے؟ کیا ایسی چیز کی تشہیر بھی حرام ہے جو اپنی ملکیت میں نہ ہو لیکن اپنے کسی قابل اعتماد واقف کار کی ملکیت میں ہو؟ مختصر یہ کہ اگر ہم کسی چیز کا اشتہار چلاتے ہیں جو ہماری ملکیت میں نہیں لیکن جب کسی خریدارنے ہم سے اس چیز کا مطالبہ کیا تو ہم نے اپنی جیب سے وہ چیز خرید کر اس کو پہنچا دی، گاہگ سے کوئی پیشگی رقم بھی نہیں لی بلکہ چیز موصول ہونے پر رقم کی ادائیگی کی شرط رکھی، کیا پھر بھی ہماری آمدن حرام ہوئی؟

  • سائل: نعمان سلیممقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 26 نومبر 2020ء

زمرہ: آن لائن کاروبار/ ای-کامرس

جواب:

شریعتِ اسلامیہ نے عقودِ بیع اور مالی معاملات میں ایسے اُمور کو ناجائز قرار دیا ہے جن کی وجہ سے فریقین کے درمیان نزاع و مخاصمت، لڑائی جھگڑے، دھوکہ دہی یا باطل طریقے سے ایک دوسرے کے مال حاصل کرنے کا امکان پایا جاتا ہو۔ خرید و فروخت کے معاملات میں شریعت نے جن اُمور کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیا ہے اُن میں سے ایک ’قبضہ علیٰ المبیع‘ یعنی فروخت کردہ شے کے قبضے (Possession) کا معاملہ ہے۔ اس کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ بائع (فروخت کنندہ/بیچنے والا) جس سامان کو بیچ رہا ہے بائع کے پاس اُس سامان کو بیچنے کا اختیار ہو تاکہ خرید و فروخت مکمل ہونے پر سامان مُشتری (خریدنے والے) کے حوالہ کر دیا جائے۔ اصولی طور پر تمام فقہائے کرام اور آئمہ اربعہ اس امر پر متفق ہیں کہ ’بیع قبل القبض‘ یعنی قبضہ سے پہلے یا قبضہ کے بغیر کسی شے کی خرید و فروخت کرنا جائز نہیں، مگر اس معاملے کی تفصیلات اور جزئیات میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

فقہائے احناف کے نزدیک قبضہ کا مفہوم یہ ہے کہ مَبیع (بیچا جانے والے سامان) پر مُشتری (خریدار) کو اس طرح اختیار سونپ دیا جائے کہ مُشتری کو قبضہ کرنے، استعمال کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی قدرت و اختیار حاصل ہوجائے اور بائع کی طرف سے کوئی مانع اور حائل نہ رہے۔ خریدار کو حاصل ہونے والا یہ قبضہ کبھی تو حقیقی و حسّی (Physically) ہوتا ہے اور کبھی دوسرے معنوی و حکمی (Virtually) ہوتا ہے۔ مختلف چیزوں کا قبضہ ان کے حسب حال ہوتا ہے۔ شریعت نے قبضہ کی کسی خاص صورت کو مخصوص نہیں کیا بلکہ قبضہ کی ہر اُس صورت کو جائز قرار دیا ہے جسے عُرف میں قبضہ سمجھا جاتا ہے اور معاشرے کے لوگ اُسے قبول کرتے ہیں۔ گویا مالی لین دین میں قدرت و اختیار کی ہر وہ شکل جسے معاشرے میں قبولیت حاصل ہو اُس کو شرعاً قبضہ کا مصداق سمجھا جائے گا۔ اِسی طرح قبضہ کی قدرت اور موقعہ دیدینا بھی قبضہ کے قائمقام اور اس کی ہی ایک شکل ہے۔ احناف کے نزدیک شے کا حسی قبضہ ضروری نہیں ہے، بلکہ مبیع کا تخلیہ (تمام رکاوٹوں کو ہٹا کے دوسرے کو تصرف و استعمال کا حق دینا) بھی کافی ہے۔ مروجہ تجارتی شکلوں میں تخلیہ کا معنی و مصداق یہ ہوگا کہ فروخت کردہ شے کا حکمی قبضہ (Virtual possession) ثابت ہوجائے۔ انٹرنیٹ اور ای کامرس کے ذریعہ ہونے والی مروجہ تجارتی شکلوں میں قبضہ کا مطلب یہ ہے کہ ضروری کارروائی عمل میں لے آئی جائے اس طور پر کہ فروخت کردہ شے کی ذمہ داری اور حقِ تصرف بائع سے مُشتری کی طرف منتقل ہوجائے اور سامان کی ذمہ داریاں (Liabilities) اور فوائد (Profits) کا وہ حق دار بن جائے۔

اس سے واضح ہوا کہ ایسی شے کی بیع جائز نہیں جس پر بیچنے والے کو حسّی یا حکمی طور پر قبضہ حاصل نہ ہو، ایسی شے کو نہ تو فروخت کرنا جائز ہے اور نہ ہی اُس کی قیمت وصول کرنا درست ہے، کیونکہ اس صورت میں خریدنے والے کو حقِ تصرف منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ڈراپ شپنگ (DROPSHIPPING) کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ ڈراپ شپنگ تجارت کی ایک جدید شکل ہے جس میں کوئی شخص کسی مینوفیکچرنگ کمپنی کی ویب سائٹ یا کسی بڑے ای سٹور مثلاً ایمازون، والمارٹ، دراز اور علی بابا وغیرہ پر بکنے والی کسی پراڈکٹ کی تشہیر کرتا ہے اور کسٹمرز کو خریداری کی آفر کرتا ہے اور آرڈر ملنے پر مطلوبہ شے مینوفیکچرنگ کمپنی یا ای سٹور سے خرید کر کسٹمر تک پہنچاتا ہے اور کسٹمر شے کی وصولی پر قیمت ادا کرتا ہے۔ ڈارپ شپنگ جائز ہے مگر اس میں چند شرائط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ شے کی جنس، نوع، صفت، مقدار، وصولی کی تاریخ، قیمت، قیمت کی ادائیگی کا طریقہ کار اور حمل و نقل کے مصارف کا واضح اور غیر مبہم تعین کیا جائے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ ڈراپ شپّر اپنی ویب سائٹ یا جس میسجنگ سروس کے ذریعے پراڈکٹس کی تشہیر کر رہا ہے وہاں کسٹمرز سے خرید و فروخت کا معاہدہ نہ کرے بلکہ کسٹمرز سے آرڈر موصول ہونے پر مطلوبہ شے کا بندوبست کرکے کسٹمرز کو فراہم کرنے کا وعدہ کرے، اِس وعدے کے عوض کل قیمت کا کچھ حصہ پیشگی طور پر وصول کرنا چاہے تو اس میں بھی حرج نہیں۔ تیسری شرط یہ ہے کہ کسٹمر نے جس شے کا آرڈر دیا ہے ڈراپ شپّر مینوفیکچرنگ کمپنی یا ای سٹور سے اُس شے کو خود خریدے، یا خریداری کا معاہدہ کر کے خود قیمت ادا کرے، اِس سے ڈراپ شپر کا قبضہ حقیقی یا حکمی طور پر ثابت ہو جائے گا، اس کے بعد اس ای سٹور یا کمپنی کو کہہ دے کہ مطلوبہ شے فلاں آدمی کو بھیج دیں۔ ان شرائط کے ساتھ ڈراپ شپنگ جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری