کامل ہبہ کے بعد واہب کے ورثاء شئے موہوبہ کی واپسی کا مطالبہ کرسکتے ہیں؟


سوال نمبر:5778
السلام علیکم۱ میرے مرحوم والد کا ایک بڑا سوتیلا بھائی، ایک حقیقی چھوٹا بھائی اور دو بہنیں تھیں جن کی ایک بڑی چچا زاد بہن عائشہ تھی جو اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی جس کی شادی میرے سوتیلے تایا فیض محمد سے ہونے کے بعدطلاق ہوگئی جس سے انکی کوئی اولاد نہ ہوئی اور تایا نے 1986 میں دوسری شادی کرلی۔ 1986 میں ہی میرے مرحوم والد کو اپنی چچا زاد بہن مذکورہ نے اپنی موروثی اراضی میں سے 246 کنال ھبہ باقبضہ کردیا اور اس ھبہ کے گواہان کا شناخت کنندہ میرے چچا یعنی اپنے اکلوتے حقیقی چھوٹے بھائی ممتاز علی کو بنایا۔ 2013 میں میرے والد کا قتل ہوگیا۔ اور اسی سال جائیداد متذکرہ ہمارے نام بطور وراثت منتقل ہوگئی۔ میرے چچا ممتاز علی نے مسماہ عائشہ سے جھوٹا مختار نام لے کر جائیداد موھوبہ کی واپسی کا دیوانی دعوہ کر دیا جو 2013 سے تاحال زیر سماعت ہے۔ اس سارے عرصے میں عائشہ خود ایک بار بھی عدالت نہیں گئی نہ اور نہ ہی اس نے میرےوالد سے یا ہم سے خود زمین کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اس دوران جائیداد موھوبہ کی بابت چند ایک تبادلہ جات اور منتقلی کے انتقالات بھی عمل میں آئے جن کو ممتاز یا عائشہ نے نہیں رکوایا۔ عائشہ خود میرے والد کو منتقلی ھبہ کے بعد 2019 میں میرے والد کی وفات کے قریب 7 سال بعد فوت ہوگئی۔ اس تمام صورت حال میں کیا ھبہ واپس ہو سکتا ہے یا نہیں۔۔۔؟؟ شرعی و قانونی راہنمائی فرمائیے۔ جزاک اللہ

  • سائل: ملک اختر علیمقام: پہاڑپور ، ڈیرہ اسماعیل خان
  • تاریخ اشاعت: 28 اگست 2020ء

زمرہ: ہبہ/ ہدیہ

جواب:

شرعی اصطلاح میں ہبہ سے مراد ہے کہ اپنے مال کا بغیر کسی عوض یا قیمت کے کسی دوسرے شخص کی ملکیت میں دے دینا۔ ہبہ کرنے والے کو ’واہب‘ کہتے ہیں اور جس شخص کو شئے ہبہ کی جاتی ہے اسے ’موہوب لہْ‘ کہتے ہیں۔ جب واہب کوئی شئے ہبہ کر دے تو اس کی ملکیت موہوب لہ کو منتقل ہو جاتی ہے اور واہب کا اس پر حقِ ملکیت ختم ہو جاتا ہے۔ حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  نے بیان کیا ہے کہ:

قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالعُمْرَى، أَنَّهَا لِمَنْ وُهِبَتْ لَهُ.

نبی کریم  صلی اللہ عیہ وآلہ وسلم  نے عمریٰ (زندگی کے لیے ہبہ) کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ یہ اسی کا ہے جس کو ہبہ کیا گیا ہے۔

بخاري، الصحیح، كتاب: الهبة وفضلها، باب: ما قيل في العمرى والرقبى، 2: 925، رقم: 2482، بیروت: دار ابن کثیر الیمامة

حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  سے ہی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ عیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

أَيُّمَا رَجُلٍ أُعْمِرَ عُمْرَى لَهُ وَلِعَقِبِهِ، فَإِنَّهَا لِلَّذِي أُعْطِيَهَا، لَا تَرْجِعُ إِلَى الَّذِي أَعْطَاهَا، لِأَنَّهُ أَعْطَى عَطَاءً وَقَعَتْ فِيهِ الْمَوَارِيثُ.

جس شخص کو او ر اس کے وارثوں کو تاحیات کوئی چیز دی گئی سو یہ چیز اسی کے لیے ہے جس کو دی گئی ہے وہ چیز دینے والے کی طرف نہیں لوٹے گی کیونکہ اس نے ایسی چیز دی ہے جس میں وراثت جاری ہوگی۔

مسلم، الصحیح، كتاب الهبات، باب العمرى، 3: 1245، رقم: 1625، بیروت: دار احیاء التراث العربي

لہٰذا جب کوئی اپنی کسی چیز کو زندگی میں ہبہ کر دے تو وہ اسی کی ملکیت ہو جاتی ہے جس کو ہبہ کی گئی ہو اور پھر اس چیز کو ہبہ کرنے والے کی وراثت شمار نہیں کیا جاتا۔علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَإِذَا مَاتَ الْوَاهِبُ فَوَارِثُهُ أَجْنَبِيٌّ عَنْ الْعَقْدِ إذْ هُوَ مَا أَوْجَبَهُ وَهُوَ مُجَرَّدُ خِيَارٍ فَلَا يُورَثُ.

اور جب ہبہ کرنے والا فوت ہو جائے تو اس کے ورثا اس عقد سے اجنبی متصوّر ہوں گے کیونکہ اس نے (اپنی حیات میں اپنے اوپر) عقد لازم کیا ہے اور یہ محض اختیار ہے، لہٰذا اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی۔

ابن نجيم، البحر الرائق، كتاب الهبة، باب الرجوع في الهبة، 7: 292، بيروت: دار المعرفة

علامہ ابن عابدين شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَتَتِمُّ الْهِبَةُ بِالْقَبْضِ الْکَامِلِ.

اور ہبہ کامل قبضہ سے مکمل ہوجاتا ہے۔

ابن عابدین شامي، ردالمحتار، 8: 435، بیروت: دارلفکر

صورتِ مسئلہ کے مطابق عائشہ نے اپنی ملکیت سے زمین اپنے چچازاد بھائی کو ہبہ کی اور قبضہ بھی دے دیا تو اب موہوبہ زمین آپ کے والد مرحوم کی ملکیت میں آگئی تھی، اس لیے کوئی شخص اس کی واپس کا قانونی و شرعی حق نہیں رکھتا۔ درج بالا تصریحات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ہبہ کی ہوئی شئے موہوب لہ کے قبضے میں دینے کے بعد واہب کی میراث کے طور پر تقسیم نہیں ہوسکتی اور نا واہب کے ورثاء شئ ہبہ واپس لے سکتے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری