شوہر نے طلاق کی نیت کے بغیر کہا ’تم میری طرف سے فارغ‘ ہو تو کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:5745
السلام علیکم! امید ہے آپ خیریت سے ہونگے، جناب آپ سے مسئلہ طلاق کے بارے میں معلومات چاہییں۔ ہمارے ایک دوست نے جو یونان میں مقیم ہے گھریلو لڑائی جھگڑے پر اپنی بیوی کو ٹیلی فون پر سمجھا رہا تھا اس کی بیوی کا اس کے والدین سے گھریلو کام کاج پر جھگڑا چل رہا تھا۔ میرے دوست نے ٹیلی فون پر اس کو کہا اگر تم اپنے 2 بچوں کے کام نہیں کر سکتی تو ’’تم میری طرف سے فارغ ہو اپنے والدین کے گھر جاؤ‘‘ پھر 5 منٹ سمجھایا وہ نہیں سمجھی دوسری بار پھر کہا ’’میری طرف سے تم آزاد ہو اپنے والدین کے گھر چلی جاؤ‘‘ پھر 10 منٹ سمجھایا پھر تیسری بار کہا ’’میری طرف سے تم فارغ ہو اپنے والدین کے گھر چلی جاؤ‘‘ یہ الفاظ کہتے ہوئے اس کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی۔ براہ مہربانی اس مسئلہ میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔ وہ مانتا ہے کہ تین بار کہا ہے: میری طرف سے تم فارغ ہو اپنے والدین کے گھر چلی جاؤ۔ جبکہ اس کی نیت نہیں تھی طلاق دینے کی اس سارے معاملہ میں طلاق کا لفظ استعمال نہیں کیا۔

  • سائل: محمد زبیرمقام: یونان
  • تاریخ اشاعت: 20 مئی 2020ء

زمرہ: طلاق بائن

جواب:

لفظِ طلاق کے علاوہ بھی کچھ ایسے الفاظ ہیں جن سے نکاح ختم ہو جاتاہے۔ انہیں الفاظِ کنایہ کہتے ہیں، صحابہ، تابعین اور فقہاء کرام رحمۃ اللہ علیہم نے ان الفاظ سے طلاق کا وقوع جائز قرار دیا ہے۔ الفاظِ کنایات سے طلاق بائن واقع ہوتی ہے یعنی فوری نکاح ختم ہو جاتا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:/p>

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِىُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِىُّ قَالَ سَأَلْتُ الزُّهْرِىَّ أَىُّ أَزْوَاجِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم اسْتَعَاذَتْ مِنْهُ قَالَ أَخْبَرَنِى عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ رضى الله عنها أَنَّ ابْنَةَ الْجَوْنِ لَمَّا أُدْخِلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَدَنَا مِنْهَا قَالَتْ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ فَقَالَ لَهَا لَقَدْ عُذْتِ بِعَظِيمٍ الْحَقِى بِأَهْلِكِ.

امام اوزاعی کا بیان ہے کہ میں نے زہری سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کون سی بیوی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پناہ مانگی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جون کی بیٹی کے پاس گئے اور اس کے نزدیک ہوئے تو اس نے کہا: میں آپ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: تم نے بہت بڑی ہستی کی پناہ لی ہے، لہٰذا اب اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ۔

بخاري، الصحيح، كتاب الطلاق، باب من طلق وهل يواجه الرجل امرأته بالطلاق، 5: 2012، الرقم: 4955، دار ابن كثير اليمامة

نسائي، السنن، كتاب الطلاق، باب مواجهة الرجل المرأة بالطلاق، 6: 150، الرقم: 3417، حلب: مكتب المطبوعات الإسلامية

ابن ماجه، السنن، كتاب الطلاق، باب ما يقع به الطلاق من الكلام، 1: 661، الرقم: 2050، بيروت: دار الفكر

اَئمہ حدیث نے اس روایت میں ’’گھر والوں سے جا مل یا گھر والوں کے پاس چلی جا‘‘ کے الفاظ سے مراد طلاق لیا ہے، اس لیے انہوں نے اس روایت کو طلاق کے باب میں نقل کیا ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے:

عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: إِذَا قَالَ: لَا سَبِيلَ لِي عَلَيْكِ فَهِيَ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ.

اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ میرا تجھ پر کوئی حق نہیں تو ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔

ابن أبي شيبة، المصنف، 4: 79، الرقم: 17995، الرياض: مكتبة الرشد

فقہاء کرام نے بھی کنایہ الفاظ سے طلاق واقع ہونے کے حوالے سے تفصیلات بیان کی ہیں۔ ذیل میں اختصار کی خاطر چند علماء کرام کی رائے نقل کی ہے:

وَالضَّرْبُ الثَّانِي: الْکِنَايَاتُ، وَلاَيَقَعُ بِهَا الطلاَقُ إلاَّبِنِيَةٍ، أَوْ دَلالَةٍ حَالٍ.

(طلاق کی ) دوسری قسم کنایات ہے۔ ان سے طلاق صرف اس وقت ہو گی جب نیت یا دلالت حال ہو۔

أحمد بن محمد البغدادي المعروف بالقدوري، مختصر القدوري: 363، بیروت: مؤسسة الريان للطباعة والنشر والتوزيع

علامہ مرغینانی اور فتاویٰ ہندیہ کے مرتبین علماء کرام فرماتے ہیں:

وَهُوَ الْكِنَايَاتُ لَا يَقَعُ بِهَا الطَّلَاقُ إلَّا بِالنِّيَّةِ أَوْ بِدَلَالَةِ الْحَالِ.

وہ کنایات سے صرف نیت ہو یا دلالت حال تو طلاق واقع ہو گی۔

برهان الدين علي المرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 231، المكتبة الإسلامية

الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1: 373، دار الفکر

علامہ عبد الرحمٰن الجزیری الفاظ کنایات سے طلاق کے واقع ہونے کے لیے دلالتِ حال یا نیت کا ہونا ضروری قرار دیتے ہیں:

وَلَا بُدَّ فِيْ إِيقَاعِ الطَّلَاقِ بِالْکَنَايَةِ مِنْ أَحَدِ أَمْرَيْنِ: أَمَّا النِّيَةُ کَمَا ذَکَرْنَا، وَأَمَّا دَلَالَةِ الْحَالَةِ الظَّاهِرَةِ الَّتِي تَفِيْدُ الْمَقْصُودِ مِنَ الْکَنَايَاتِ کَمَا إِذَا سَألتَهُ الطَّلَاقَ، فَقَالَ لَهَا: أَنْتِ بَائِنٌ فَإِنَّهُ يَقَعُ بِدُوْنَ نِيَّة.َّ

اور الفاظ کنایہ سے طلاق کے واقع ہونے کے لئے ان دو باتوں میں سے ایک کا ہونا ضروری ہے۔ یا تو نیت ہو جیسا کہ بتایا گیا یا بظاہر حالات اس امر پر دلالت کرتے ہوں جو الفاظ کنایہ سے مراد ہیں مثلاً بیوی طلاق کا مطالبہ کرے اور خاوند کہے کہ تو بائن ہو گئی تو اب طلاق بغیر نیت کے واقع ہو جائے گی۔

عبد الرحمٰن الجزيري، الفقه علی المذاهب الأربعة، 3: 322، بيروت، لبنان: دار ار احياء التراث العربي

مذکورہ بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ الفاظِ کنایات سے طلاق واقع ہونے کے لیے دو چیزوں میں سے ایک کا ہونا لازم ہے، یعنی جب بھی کوئی اپنی بیوی کو کنایہ الفاظ بولے تو اس کی طلاق کی نیت ہونا لازمی ہے یا پھر طلاق کی نیت تو نہ ہو لیکن دلالت حال کا پایا جانا ضروری ہے۔ جیسے ایک شخص اپنی بیوی کو کہے ’’تو میری طرف سے فارغ ہے‘‘ اس جملہ سے طلاق واقع ہونے کی پہلی صورت یہ ہے کہ وہ شخص اپنی بیوی کو یہ جملہ طلاق کی نیت سے بولے تو طلاق بائن واقع ہو گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کی بیوی طلاق کا مطالبہ کر رہی ہو یا لڑائی جھگڑے میں گفتگو کا سیاق اسباق اس بات پر دلالت کر رہا ہو کہ اس سے مراد طلاق ہی ہے تو بھی طلاق بائن واقع ہو گی، اسی کو دلالتِ حال کہتے ہیں۔

صورتِ مسئلہ میں اگر صرف یہ جملہ بولا گیا ہوتا کہ ’’تو میری طرف سے فارغ ہے‘‘ توطلاق کے نفاذ کے لیے سائل کی نیت دریافت کرنا ضروری تھی جبکہ یہاں اس جملہ سے پہلے اور بعد میں بولے جانے والے جملے اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ یہ الفاظ طلاق کے لیے بولے گئے ہیں اور طلاق کے علاوہ ان کا کوئی مفہوم بھی نہیں نکلتا، لہٰذا پہلے جملہ سے طلاق بائن صغریٰ واقع ہو کر نکاح ختم ہو گیا ہے اور بعد میں دونوں بار یہی جملہ بولنے سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ جب نکاح ختم ہو جائے تو طلاق بے محل ہو جاتی ہے۔ اس لیے ایک طلاق واقع ہوئی ہےاور عورت آزاد ہے، اب وہ عدت گزار کر جہاں چاہے اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے۔ اگر سابق شوہر سے رجوع کرنا چاہے تو عدت میں اور عدت کے بعد بھی دوبارہ نکاح کیے بغیر رجوع نہیں کر سکتی یعنی دونوں صورتوں میں تجدید نکاح ضروری ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی