جواب:
ہم جنس اشیاء کا تبادلہ کرتے ہوئے اضافی لینے کی ممانعت نہیں ہے، تاہم برابر برابر تبادلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الدِّينَارُ بِالدِّينَارِ لَا فَضْلَ بَيْنَهُمَا، وَالدِّرْهَمُ بِالدِّرْهَمِ لَا فَضْلَ بَيْنَهُمَا.
اشرفی کے بدلے میں اشرفی دو تو اضافہ مت کرو اور روپے کے بدلے میں روپے دو تو اضافہ مت کرو۔
مسلم، الصحیح، كتاب المساقاة، باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا، 3: 1212، رقم: 1588، بیروت، لبنان: دار إحیاء التراث العربي
اسی طرح دیگر ہم جنس اشیاء کا آپس میں تبادلہ کرتے وقت برابر برابر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ اضافہ کرنے سے واضح طور پر منع کر دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لاَ تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ، وَالفِضَّةَ بِالفِضَّةِ إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ، وَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالفِضَّةِ، وَالفِضَّةَ بِالذَّهَبِ كَيْفَ شِئْتُمْ.
سونے کو سونے کے بدلے نہ بیچو مگر برابر برابر، چاندی کو چاندی کے بدلے نہ بیچو مگر برابر برابر لیکن سونے کو چاندی کے بدلے یا چاندی کو سونے کے بدلے جس طرح چاہو فروخت کر دیا کرو۔
بخاري، الصحيح، كتاب البيوع، باب بيع الذهب بالذهب، 2: 761، رقم: 2066، بيروت، لبنان: دار ابن كثير اليمامة
اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، سَوَاءً بِسَوَاءٍ، يَدًا بِيَدٍ، فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ، فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ، إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ.
سونے کی بیع سونے کے عوض، اور چاندی کی بیع چاندی کے عوض اور گندم کی بیع گندم کے عوض اور جو کی بیع جو کے عوض اور کھجور کی بیع کھجور کے عوض اور نمک کی بیع نمک کے عوض برابر برابر اور نقد بہ نقد ہو اور جب یہ اقسام مختلف ہوجائیں تو پھر جس طرح چاہو بیچو بشرطیکہ نقد بہ نقد ہو۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَزْنًا بِوَزْنٍ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَزْنًا بِوَزْنٍ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، فَمَنْ زَادَ أَوِ ازْدَادَ فَقَدْ أَرْبَى.
سونے کو سونے کے بدلے میں تول کر برابر برابر فروخت کرو اور چاندی کو چاندی کے بدلے میں تول کر برابر برابر فروخت کرو، جس شخص نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو سود ہو گا۔
نسائي، السنن، كتاب البيوع، بيع الدرهم بالدرهم، 4: 29، رقم: 6161، بيروت: دار الكتب العلمية
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ ہم جنس اشیاء میں برابر برابر تبادلہ کرنا جائز ہے۔ اس لیے جتنی مقدار میں آٹا دیا یا لیا ہے اتنی ہی مقدار میں واپسی کرنے میں کوئی حرج نہیں، اسے سودی قرض نہیں سمجھا جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔