جواب:
: جس طرح معاشرے میں معاشی حیثیت اور سماجی مقام کے اعتبار سے انسانی زندگی کے مختلف طبقات پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح دینی و روحانی مدارج و مقامات میں روزہ رکھنے کے لحاظ سے لوگوں کی دو اقسام ہیں :
1۔ عام لوگوں کا روزہ 2۔ خاص لوگوں کا روزہ
1۔ عام لوگوں کا روزہ
پہلی قسم عام لوگوں کی ہے جو محض رسماً روزہ رکھتے ہیں اور ان کا روزہ سحری و افطاری تک محدود ہوتا ہے وہ روزے کے آداب و شرائط کا مطلقاً لحاظ نہیں رکھتے چنانچہ اکثر و بیشتر حسب ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوائے بھوکے اور پیاسے رہنے کے ان کے ہاتھ کچھ نہیں آت۔ وہ لوگ جو روزہ رکھ کر احکام خداوندی کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہیں۔ وہ جھوٹ، غیبت، دھوکہ، فریب دہی اور دیگر افعال قبیحہ کے ارتکاب کو اپنا معمول بنائے رکھتے ہیں۔ روزے کے فیوض و برکات سے محروم رہتے ہیں اور نتیجہ خیزی کے اعتبار سے ان کی صلوٰۃ و صیام بے روح ہے۔ ایسا روزہ افراد ملت پر مثبت اور نفع بخش اثرات مرتب نہیں کرسکتا۔
2۔ خاص لوگوں کا روزہ
دوسری قسم خاص لوگوں کی ہے جو احکام خداوندی کی پاسداری کرتے ہیں اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے اپنے دامن بچائے رکھتے ہیں۔ روزہ سے ان کے سیرت و کردار میں تقویٰ کا جوہر پیدا ہو جاتا ہے او ان کی زندگیاں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن کے فرمودہ ایزدی کی عملی تفسیر بن جاتی ہیں۔ تقویٰ کی بدولت ان کے شب و روز انقلاب آشنا ہو جاتے ہیں اور وہ ہر معاملے میں حلال و حرام کی تمیز کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔
ایسا روزہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان کے اور عذابِ دوزخ کے درمیان ڈھال بن جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمای :
’’روزہ دوزخ کی آگ سے یوں ڈھال ہے جس طرح لڑائی کے وقت تمہاری ڈھال ہوتی ہے۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في فضل الصيام، 2 : 305، رقم : 1639
مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں معلوم ہوا کہ عام اور خاص لوگوں کے روزے میں فرق یہ ہے کہ عام لوگوں کا روزہ صرف سحری و افطاری تک محدود ہوتا ہے۔ جبکہ خاص لوگوں کا روزہ ان کے مجاہدہ کی بناء پر ان کو مقامِ مشاہدہ پر فائز کردیتا ہے۔ کیونکہ ان کی طلب و آرزو کا محور اﷲ کی رضا کا حصول اور دیدارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوت۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔