جواب:
اگر قبر اتنی پرانی ہوگئی ہے کہ اس میں دفن میت کا جسم تحلیل ہوکر مٹی میں مل جانے کا غالب یقین ہے تو قبر کھول صاف کر کے اس میں دوسری میت دفن کرنا جائز ہے۔ اگر قبر کھولنے پر پہلی میت کی ہڈیاں یا دیگر کوئی باقیات ملیں تو احترام کے ساتھ یکجا کرکے قبر کی ایک طرف دفن کر دی جائیں گی اور نئی میت اور ان ہڈیوں کے درمیان مٹی کی آڑ بنا دی جائے گی۔ امام محمد بن عبدالواحد المعروف ابن ہمام اور علامہ شامی پرانی قبر میں دوبارہ میت دفن کرنے کے حوالے سے فرماتے ہیں:
وَلَا يُحْفَرُ قَبْرٌ لِدَفْنِ آخَرَ إلَّا إنْ بَلِيَ الْأَوَّلُ فَلَمْ يَبْقَ لَهُ عَظْمٌ. إلَّا أَنْ لَا يُوجَدَ فَتُضَمُّ عِظَامُ الْأَوَّلِ وَيُجْعَلُ بَيْنَهُمَا حَاجِزٌ مِنْ تُرَابٍ.
اور دوسری دفعہ دفن کرنے کے لیے قبر کو نہ کھودا جائے سوائے اس صورت کے جب پہلی میت بوسیدہ ہو جائے اور اس کی ہڈیاں باقی نہ رہی ہوں۔ اگر تدفین کے لیے کوئی جگہ نہ ملے تو پہلے کی ہڈیاں بھی اسی قبر میں ساتھ ملا دی جائیں گی اور درمیان میں مٹی کی آڑ بنا دی جائے گی۔
اور علامہ فخر الدین عثمان بن علی زیلعی حنفی نے تبیین الحقائق میں بیان کیا ہے، اسی کو ابن نجیم، علامہ شامی اور صاحبان فتاویٰ ہندیہ نے بھی نقل کیا ہے:
وَلَوْ بَلِيَ الْمَيِّتُ وَصَارَ تُرَابًا جَازَ دَفْنُ غَيْرِهِ في قَبْرِهِ وَزَرْعُهُ وَالْبِنَاءُ عَلَيْهِ.
اگر میت بوسیدہ ہوکر مٹی میں مل جائے تو اس جگہ دوسری میت دفن کرنا، وہاں کھیتی کاشت کرنا اور اس پر تعمیرات کرنا جائز ہے۔
درج بالا اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ فقہاء نے پرانی اور بوسیدہ قبر کو کھولنے اور اس میں دوسری میت کی تدفین کرنے کی مشروط اجازت دی ہے۔ اگر کسی قبر میں دفن میت کا جسم گل جانے اور ہڈیاں بوسیدہ ہو کر مٹی ہونے کا یقین ہو تو اس قبر میں بوقت ضرورت دوسری میت کو دفنانا جائز ہے، اور اگر طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی قبر کھولنے پر پہلی میت کا جسم مکمل اور تازہ رہے تو فوراً قبر بند کردی جائے اور اس میں تدفین نہ کی جائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔