جواب:
سوالاتِ مسؤولہ کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
1۔ جب طلاق ایسے کنایہ الفاظ کے ساتھ دی جائے جن سے فوری نکاح ختم ہو جاتا ہے اور تجدید نکاح کے بغیر رجوع ممکن نہیں ہوتا، ایسی صورتحال کے بعد صریح یا کنایہ الفاظ کے ساتھ دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی کیونکہ پہلی کنایہ طلاق سے نکاح ختم ہوگیا اور بعد میں دی گئی طلاق فضول ہوئی، اس لیے کہ محلِ طلاق موجود ہی نہیں رہا۔ لہٰذا پہلی طلاق ہوگی اور فریقن دوبارہ نکاح کر کے بطور میاں بیوی اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: کیا طلاقِ رجعی کے بعد کنایہ الفاظ سے دی ہوئی طلاق واقع ہوجاتی ہے؟
2۔ نکاح کے بعد اور رخصتی سے پہلے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے، لیکن اس کے وقوع کی صورتیں مختلف ہیں، جیسا کہ ابن ابی شیبہ نے ایک روایت نقل کی ہے:
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: إذَا طَلَّقَ الْبِكْرَ وَاحِدَةً فَقَدْ بَتَّهَا، وَإِذَا طَلَّقَهَا ثَلاَثًا لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ.
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے باکرہ کو ایک طلاق دی تو وہ بائنہ ہو جائے گی اور اگر اسے دخول سے پہلے تین طلاقیں دیدے تو وہ اس کے لئے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کر لے۔
ابن أبي شيبة، المصنف، 4: 66، الرقم:17853، الرياض: المكتبة الرشد
غیرمدخولہ کی طلاق کے بارے میں فقہاء کرام فرماتے ہیں:
فَإِنْ فَرَّقَ الطَّلَاقَ بَانَتْ بِالْأُولَى وَلَمْ تَقَعْ الثَّانِيَةُ وَالثَّالِثَةُ) وَذَلِكَ مِثْلُ أَنْ يَقُولَ: أَنْتِ طَالِقٌ طَالِقٌ طَالِقٌ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدَةٍ إيقَاعٌ عَلَى حِدَةٍ إذَا لَمْ يَذْكُرْ فِي آخِرِ كَلَامِهِ مَا يُغَيِّرُ صَدْرَهُ حَتَّى يَتَوَقَّفَ عَلَيْهِ فَتَقَعُ الْأُولَى فِي الْحَالِ فَتُصَادِفُهَا الثَّانِيَةُ وَهِيَ مُبَانَةٌ.
اگر شوہر نے غیر مدخولہ بیوی کو الگ الگ تین طلاقیں دے تو پہلی طلاق سے بائن ہو جائے گی، دوسری اور تیسری واقع نہیں ہوں گی۔ مثلاً شوہر یوں کہے کہ تجھے طلاق، تجھے طلاق، تجھے طلاق، ان میں سے ہر ایک الگ الگ طلاق واقع کر رہا ہے بشرطیکہ شوہر نے اپنے آخری کلام میں کوئی ایسی چیز نہ ذکر کی ہو جو صدر کلام کو بدل دے حتیٰ کہ وقوع اسی پر موقوف ہو جائے، چنانچہ پہلی طلاق فوراً واقع ہوجائے گی اب دوسری طلاق اس حال میں دی کہ نکاح ٹوٹ چکا تھا۔
رخصتی، دخول یا خلوتِ صحیحہ (میاں بیوی کی ایسی ملاقات جس میں انہیں مباشرت کا مکمل موقعہ میسر ہو اور کوئی امر مانع نہ ہو) سے پہلے طلاق اور نئے نکاح کی دو صورتیں ہیں:
1. اگر شوہر نے الگ الگ تین بار طلاق دی تو پہلی ایک طلاق واقع ہوگی اور نکاح فوراً ختم ہوجائے گا۔ باقی دونوں طلاقیں فضول ہوں گی، کیونکہ پہلی طلاق سے نکاح ختم ہوچکا ہے اور وقوع طلاق کا محل ہی نہیں رہا۔ نکاح کے ختم ہونے کے بعد عورت آزاد ہے جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ اگر پہلے والا شخص ہی اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہے تو تجدیدِ نکاح کے بعد دونوں اکٹھے رہ سکتے ہیں۔
2. اگر شوہر نے تینوں طلاقیں اکٹھی دے، جیسے ’ تجھے تین طلاق‘ یا ’میں تجھے تین طلاق دیتا ہوں‘ تو پھر تینوں اکٹھی واقع ہوں گی۔ اس صورت میں پہلے والا شخص اس عورت کے ساتھ دوبارہ نکاح نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ کسی دوسرے شخص سے شادی نہ کر لے اور بعد میں بیوہ یا مطلقہ نہ ہوجائے۔
اس لیے رخصتی سے پہلے دی گئی طلاق کے وقوع ہونے کا حکم درج بالا صورتوں کے مطابق ہوگا۔ اس کے علاوہ معافی کا اعتراف کرنے سے ساس کی معافی ہوگئی، تجدید نکاح کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ باقی تمام باتیں لغو ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔