جواب:
روزہ نہ صرف روح کی غذا ہے بلکہ اس کے پس پردہ بے شمار دینی و دنیاوی حکمتیں اور ایسے رموز کار فرما ہیں جو صرف اﷲ تعالیٰ روزہ دار کو عطا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ کی درج ذیل حکمتیں ہیں :
1۔ تقویٰ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
يأَيُّهاَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo
البقرة، 2 : 183
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤo‘‘
اہلِ ایمان پر امم سابقہ کی طرح روزے اس لئے فرض کئے گئے کہ وہ متقی اور پرہیزگار بن جائیں گویا روزے کا مقصد انسانی سیرت کے اندر تقویٰ کا جوہر پیدا کر کے اس کے قلب و باطن کو روحانیت و نورانیت سے جلا دینا ہے۔ روزے سے حاصل کردہ تقویٰ کو اگر بطریق احسن بروئے کار لایا جائے تو انسان کی باطنی کائنات میں ایسا ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے جس سے اس کی زندگی کے شب و روز یکسر بدل کر رہ جائیں۔
تقویٰ بادی النظر میں انسان کو حرام چیزوں سے اجتناب کی تعلیم دیتا ہے، لیکن اگر بنظرِ غائر قرآن و سنت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ روزے کی بدولت حاصل شدہ تقویٰ حرام چیزوں سے تو درکنار ان حلال و طیب چیزوں کے قریب بھی بحالتِ روزہ پھٹکنے نہیں دیتا‘ جن سے مستفید ہونا عام زندگی میں بالکل جائز ہے۔ ہر سال ایک ماہ کے اس ضبط نفس کی لازمی تربیتی مشق (Refresher Course) کا اہتمام، اس مقصد کے حصول کے لئے ہے کہ انسان کے قلب و باطن میں سال کے باقی گیارہ مہینوں میں حرام و حلال کا فرق و امتیاز روا رکھنے کا جذبہ اس درجہ فروغ پا جائے کہ اس کی باقی زندگی ان ہی خطوط پر استوار ہو جائے۔ وہ ہر معاملے میں حکمِ خداوندی کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے حرام چیزوں کے شائبے سے بھی بچ جائے۔
2۔ تربیتِ صبر و شکر
صبر کا تقاضا ہے کہ انسان کسی نعمت سے محرومی پر اپنی زبان کو شکوہ اور آہ و بکا سے آلودہ کئے بغیر خاموشی سے برداشت کرے۔ روزہ انسان کو تقویٰ کے اس مقامِ صبر سے بھی بلند تر مقامِ شکر پر فائز دیکھنے کا متمنی ہے۔ وہ اس کے اندر یہ جوہر پیدا کرنا چاہتا ہے کہ نعمت کے چھن جانے پر اور ہر قسم کی مصیبت، ابتلا اور آزمائش کا سامنا کرتے وقت اس کی طبیعت میں ملال اور پیشانی پر شکن کے آثار پیدا نہ ہونے پائیں‘ بلکہ وہ ہر تنگی و ترشی کا بہرحال خندہ پیشانی سے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا رہے۔
اس ضمن میں دو صاحب حال بزرگوں کے واقعہ کا تذکرہ خالی از فائدہ نہ ہو گ۔ طویل جدائی کے بعد جب وہ ملے اور ایک دوسرے کا حال پوچھا تو ایک نے کہا کہ اپنا حال تو یہ ہے کہ جب خدا تعالی کسی نعمت سے نوازتا ہے تو اس کا شکر ادا کرتے ہیں، وگرنہ صبر سے کام لیتے ہیں۔ دوسرے بزرگ نے کہا‘ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ ہمارے شہر کے کتوں کا بھی یہی حال ہے۔ وہ مالک کے در پر پڑے رہتے ہیں، اگر کچھ مل جائے تو دُم ہلا کر اس کے آگے پیچھے جاتے ہیں اور اگر کچھ نہ بھی ملے تو اسے چھوڑ کر کسی اور در پر نہیں جاتے۔ پھر فرمایا کہ اپنا حال یہ ہے کہ جب مولا سے کچھ ملتا ہے تو اس کے بندوں میں بانٹ دیتے ہیں اور کچھ نہ ملے تو ہر حال میں اس کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالی نے آیاتِ صوم میں لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن کے ذریعے شکر کی ضرورت و اہمیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
3۔ جذبہ ایثار
بحالتِ روزہ انسان بھوک اور پیاس کے کرب سے گزرتا ہے تو لامحالہ اس کے دل میں ایثار‘ بے نفسی اور قربانی کا جذبہ تقویت پکڑتا ہے اور وہ عملاً اس کیفیت سے گزر کر جس کا سامنا انسانی معاشرہ کے مفلوک الحال اور نانِ شبینہ سے محروم لوگ کرتے ہیں، کرب و تکلیف کے احساس سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ فی الحقیقت روزے کے ذریعے اللہ رب العزت اپنے آسودہ حال بندوں کو ان شکستہ اور بے سر و سامان لوگوں کی زبوں حالی سے کماحقہ۔ آگاہ کرنا چاہتے ہیں، جو اپنے تن و جان کا رشتہ بمشکل برقرار رکھے ہوئے ہیں، تاکہ ان کے دل میں دکھی اور مضطرب انسانیت کی خدمت کا جذبہ فروغ پائے اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ وجود میں آ سکے، جس کی اساس باہمی محبت و مروت‘ انسان دوستی اور دردمندی و غمخواری کی لافانی قدروں پر ہو۔ اس احساس کا بیدار ہو جانا روزے کی روح کا لازمی تقاضا ہے اور اس کا فقدان اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ روزے میں روح نام کی کوئی چیز باقی نہیں بقول علامہ اقبال :
روح چوں رفت از صلوٰۃ و از صیام
فرد ناہموار، ملت بے امام
’’جب نماز و روزہ سے روح نکل جاتی ہے تو فرد نالائق و ناشائستہ اور قوم بے امام ہو جاتی ہے۔‘‘
4۔ تزکیہ نفس
روزہ انسان کے نفس اور قلب و باطن کو ہر قسم کی آلودگی اور کثافت سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔ انسانی جسم مادے سے مرکب ہے، جسے اپنی بقا کے لئے غذا اور دیگر مادی لوازمات فراہم کرنا پڑتے ہیں، جبکہ روح ایک لطیف چیز ہے، جس کی بالیدگی اور نشوونما مادی ضروریات اور دنیاوی لذات ترک کر دینے میں مضمر ہے۔ جسم اور روح کے تقاضے ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ روزہ جسم کو کھانے پینے اور بعض دیگر اُمور سے دور رکھ کر مادی قوتوں کو لگام دیتا ہے‘ جس سے روح لطیف تر اور قوی تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ جوں جوں روزے کی بدولت بندہ خواہشاتِ نفسانی کے چنگل سے رستگاری حاصل کرتا ہے، اس کی روح غالب و توانا اور جسم مغلوب و نحیف ہو جاتا ہے۔ روح اور جسم کا تعلق پرندے اور قفس کا سا ہے، جیسے ہی قفسِ جسم کا کوئی گوشہ وا ہوتا ہے، روح کا پرندہ مائل بہ پرواز ہو کر، موقع پاتے ہی جسم کی بندشوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔
مسلسل روزے کے عمل اور مجاہدے سے تزکیۂ نفس کا عمل تیز تر ہونے لگتا ہے، جس کی وجہ سے روح کثافتوں سے پاک ہو کر پہلے سے کہیں لطیف تر اور قوی تر ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض کاملین و عرفاء کی روحانی طاقت کائنات کی بے کرانیوں اور پہنائیوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔
5۔ رضاے خداوندی کا حصول
روزے کا منتہاے مقصود یہی ہے کہ وہ بندے کو تمام روحانی مدارج طے کرانے کے بعد مقام رضا پر فائز دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ مقام رضا کیا ہے؟ جو روزے کے توسط سے انسان کو نصیب ہو جاتا ہے، اس پر غور کریں تو اس کی اہمیت کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ رب کا اپنے بندے سے راضی ہو جانا اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کے مقابلے میں باقی سب نعمتیں ہیچ دکھائی دیتی ہیں۔ روزہ وہ منفرد عمل ہے جس کے اجر و جزا کا معاملہ رب اور بندے کے درمیان چھوڑ دیا گیا کہ اس کی رضا حد و حساب کے تعین سے ماوراء ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔