جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
1۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ.
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
الْأَعْرَاف، 7: 204
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تلاوتِ قرآنِ مجید کو غور اور توجہ سے سننے اور دورانِ تلاوت خاموش رہنے کا حکم دیا ہے جبکہ جو صورتِ حال آپ نے بیان کی ہے اس میں تلاوت کے دوران قاری صاحبان پر پیسے پھینکنے سے اس حکمِ الٰہی کا تقاضا پورا نہیں ہوتا۔ تلاوت کرنے اور سننے والے دونوں فریق اس حکم کی بجاآوری سے محروم رہتے ہیں۔ دورانِ تلاوت بلاعذرِ شرعی کسی کی طرف متوجہ ہونا بھی آدابِ تلاوت کے خلاف ہے، اس لیے قاری صاحب کی خدمت کے خواہشمند افراد کو چاہیے کہ پیسے جمع کر کے رکھ لیں اور تلاوت کے بعد باعزت طریقے سے قاری صاحب کے سپرد کر دیں۔ اس طرح تلاوت کے آداب بھی ملحوظ رہیں گے، محفل میں بدمزگی بھی نہیں ہوگی۔ دکھاوا اور ریاکاری نہیں ہوگی اور قاری صاحبان کی خدمت کی خواہش بھی پوری ہو جائے گی۔ دورانِ تلاوت پیسے لینے اور دینے والے تلاوتِ قرآن کی بےادبی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
2۔ تلاوت کے دوران پیسے لینا اور دینا خلاف ادب ہے جس کی وضاحت پہلے حصے میں بیان کر دی گئی ہے، یہاں دوسری صورتحال ہے درپیش ہے کہ کسی مالی لالچ کے سبب تدفینِ میت میں تاخیر کی جا رہی ہے جوکہ شرعاً قطعی طور پر جائز نہیں ہے۔ حضرت حصین بن وحوج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت طلحہ بن براء بیمار پڑے تو ان کی عیادت کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: مجھے معلوم ہوتا ہے طلحہ اس بیماری میں وفات پاجائیں گے، لہٰذا مجھے اطلاع کردینا۔ مزید فرمایا:
وَعَجِّلُوا فَإِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِجِيفَةِ مُسْلِمٍ أَنْ تُحْبَسَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ أَهْلِهِ.
اور دفن کرنے میں جلدی کرنا کیونکہ مناسب نہیں ہے کہ کسی مسلمان کی لاش اس کے گھر میں پڑی رہے۔
أبوداود، السنن، كتاب الجنائز، باب التعجيل بالجنازة وكراهية حبسها، 3: 200، رقم: 3159، بيروت: دارالفكر
علامہ ابن عابدین شامی مذکورہ بالا حدیث مبارکہ پر تبصرہ کرتے ہوئے آخر پر لکھتے ہیں:
وَالصَّارِفُ عَنْ وُجُوبِ التَّعْجِيلِ الِاحْتِيَاطُ لِلرُّوحِ الشَّرِيفَةِ فَإِنَّهُ يُحْتَمَلُ الْإِغْمَاءُ.
اور میت پر موت کا اثر ظاہر ہوتے ہی فوراً تدفین اس لیے واجب نہیں کی گئی کہ کہیں یہ بےہوشی نہ ہو، یعنی جب موت کا اطمینان ہوجائے تو پھر تدفین میں جلدی لازم ہوگی۔
شامي، ردالمحتار، 2: 193، بيروت: دارالفكر
مذکورہ حدیث کے علاوہ دیگر روایات میں بھی میت کی تجہیز و تکفین میں بلاوجہ تاخیر کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس لیے نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد جس قدر جلد ممکن ہو تدفین کر دینی چاہیے، مسئلہ مسؤلہ میں مذکور صورت شرعاً ناپسندیدہ ہے۔
3۔ میت کا جنازہ ادا کرنا، اس کے لیے ایصالِ ثواب کرنا اور ایصالِ ثواب کے تلاوتِ قرآن کرنا اولاً میت کے ورثاء کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اگر میت کے ورثاء نماز جنازہ کی ادائیگی یا تلاوتِ قرآن مجید کے لیے کسی حافظ یا قاری صاحب کو بلا رہے ہیں تو ظاہر ہے حافظ صاحب اپنی مصروفیات کو ترک کر کے اور وقت نکال کر ان کے بلاوے پر آ رہے ہیں۔ اگر ان کے وقت کا معاوضہ ادا کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ عام طور پر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ امام مسجد صاحبان یا حفاظِ کرام کا معاوضہ ہی اتنا معمولی ہوتا ہے کہ انہیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اگر قاری صاحبان کے تلاوتِ قرآن پر پیسے لینے سے ہماری غیرتِ دینی پر زد پڑتی ہے تو دینی حمیت کا تقاضا ہے کہ انہیں ان کے وقت اور خدمات کا مناسب معاوضہ دیں اور اُنہیں ان امور کے معاوضہ سے بےنیاز کر دیں۔ حد تو یہ ہے کہ امام مسجد کو ذمہ داری دیتے وقت ہی مسجد انتظامیہ کی طرف سے ہی بتا دیا جاتا ہے کہ مسجد انتظامیہ اس سے زیادہ تنخواہ نہیں دے سکتی البتہ ختم، قل، تیجے، چالیسویں پر آپ کی خدمت کرتے رہیں گے، ایسے میں امام مسجد صاحبان کو قصور وار ٹھہرانا عجیب ہے۔ اس لیے ہماری دانست میں دونوں فریقوں کا رویہ اصلاح طلب ہے۔
4۔ حفاظِ کرام، آئمہ عظام اور نعت خوانوں کو معاوضہ دینے کے حوالے سے بھی ہمارے معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہے، اور اس کا سبب بھی دونوں فریق ہیں۔ اس معاملہ میں بھی لوگوں کو نہ تو اس قدر کنجوسی کرنی چاہیے کہ مذکورہ احباب وقت اور پیسہ خرچ کر کے لوگوں کی دعوت پر ایک شہر سے دوسرے شہر جائیں اور انہیں خالی ہاتھ لوٹا دیا جائے اور ان افراد کو بھی ایسا لالچ نہیں کرنا چاہیے کہ سودےبازیاں کر کے دین کی بدنامی کا باعث بنتے پھریں۔ علماء و قراء حضرات کو اپنے منسب اور دین کے وقار کا خیال رکھنا چاہیے اور عوام الناس کے لیے بھی لازم ہے ہیں کہ ان کی وقت اور خدمات کا انہیں مناسب اعزازیہ دیں۔ اس جواب کی مزید وضاحت کے لیے ’کیا تقریر، وعظ یا تبلیغ کا معاوضہ لینا جائز ہے؟‘ ملاحظہ کیجیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔