جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ.
ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں۔
النساء، 4: 3
جبکہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا خَطَبَ أَحَدُكُمُ الْمَرْأَةَ، فَإِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ يَنْظُرَ مِنْهَا إِلَى مَا يَدْعُوهُ إِلَى نِكَاحِهَا، فَلْيَفْعَلْ. قَالَ: فَخَطَبْتُ جَارِيَةً مِنْ بَنِي سَلِمَةَ، فَكُنْتُ أَخْتَبِئُ لَهَا تَحْتَ الْكَرَبِ حَتَّى رَأَيْتُ مِنْهَا بَعْضَ مَا دَعَانِي إِلَى نِكَاحِهَا، فَتَزَوَّجْتُهَا.
جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو پیغام نکاح دے، اگر اس کی ان خوبیوں کو دیکھ سکتا ہو جو اسے نکاح پر مائل کریں، تو ضرور ایسا کرے۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ میں نے بنی سلمہ کی ایک لڑکی کو پیغام نکاح دیا اور چھپ کر اسے دیکھ لیا یہاں تک کہ میں نے اس کی وہ خوبی بھی دیکھی جس نے مجھے نکاح کی جانب راغب کیا، لہٰذا میں نے اس کے ساتھ نکاح کر لیا۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَ امْرَأَةً فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا فَإِنَّهُ أَحْرَی أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَکُمَا فَفَعَلَ فَتَزَوَّجَهَا فَذَکَرَ مِنْ مُوَافَقَتِهَا.
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاؤ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس سے نکاح کر لیا، بعد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس نے اپنی بیوی کی موافقت اور عمدہ تعلق کا ذکر کیا۔
مذکورہ بالا آیت و روایات سے معلوم ہوا کہ شادی فریقین کی پسند سے ہونی چاہیے تاکہ پیش آمدہ ازدواجی زندگی میں مسائل سے بچا جاسکے۔ یہ پسند دو طرفہ ہوگی، یکطرفہ پسند سے مقصدِ نکاح پورا نہیں ہوتا۔ اگر فریقین میں کوئی دوسرے کے ساتھ رہنے کے لیے دلچسبی نا رکھتا ہو تو نہ ان میں الفت و محبت پیدا ہوسکے گی اور نا ہی سکون میسر آئے گا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ.
اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بیشک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔
الرُّوْم، 30: 21
فریقین کی پسند سے شادی کرنا قرآن و حدیث میں جائز ہے، اسی لیے پیغامِ نکاح بھجوانے سے پہلے لڑکے اور لڑکی کا ایک دوسرے کو دیکھنا جائز ہے۔ لڑکے اور لڑکی کے دیکھنے کا یہ عمل کہیں خلوت میں نہیں بلکہ خاندان کی موجودگی میں معروف طریقہ کار کے مطابق ہونا چاہیے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
أَنَّ جِبْرِيلَ، جَاءَ بِصُورَتِهَا فِي خِرْقَةِ حَرِيرٍ خَضْرَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ.
حضرت جبرئیل علیہ السلام سبز ریشمی کپڑے میں میری تصویر لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا: یہ دنیا و آخرت میں آپ کی زوجہ ہیں۔
ترمذي، السنن، كتاب كتاب المناقب، باب فضل عائشة رضي الله عنها، 5: 704، رقم: 3880، بيروت: دار إحياء التراث العربي
اس لیے اگر کسی جگہ لڑکے یا لڑکی کے رشتے کی بات سنجیدگی سے چل رہی ہو تو تصویر بھیجنے میں کوئی حرج نہیں، تاہم اس سلسلے میں ضروری احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ والدین اور خاندان کے دیگر افراد کو اعتماد میں لیکر اور انہی کی معاونت سے رشتہ طے کرنا زیادہ مناسب ہے، فریقِ ثانی کی ضروری جانچ پڑتال کرنے کے بعد اگر اعتماد کی فضاء قائم ہو جائے تو تصویر بھیجنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
مسئلہ مسؤلہ میں بھی سائلہ نے اگر تصاویر مذکورہ بالا امور کو مدنظر رکھتے ہوئے بھجوائی ہیں تو کوئی حرج نہیں، اس کے برعکس اگر ان سے مقصود محض دوستی کرنا یا اپنے حسن و جمال کا اظہار تھا تو سائلہ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرنی چاہیے اور آئندہ ایسا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔