اسلام میں نسب بدلنے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:5652
السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ! ایک شخص جو کہ قریشی النسب ہے اور ایک مشہور بزرگ کی اولاد سے تعلق رکھتا ہے اس بزرگ کے صحیح قریشی النسب ہونے میں اس کی تمام اولاد جوکہ تقریباً چار سو نفوس پر مشتمل ہے‘ متفق ہے۔ اولاد کے علاوہ علاقائی دیگر تمام اقوام بھی گزشتہ تین سو سال سے ان بزرگ کے صحیح قریشی النسب ہونے پر متفق چلی آرہی ہیں۔ ان بزرگ کی اولاد میں سے ساتویں اور آٹھویں پشت کے چند لوگوں نے ان بزرگ کو گیلانی سید مشہور کروانا شروع کردیا ہے اور خود بھی خودساختہ گیلانی سید بن چکے ہیں جس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ خاندان کے کچھ افراد نے ان کے خلاف عدالت میں کیس دائر کیا تو جوابا انہوں نے اپنے آپ کو گیلانی سید ثابت کرنے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے پیر و مرشد حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین گیلانی قادری بغدادی رحمۃاللہ علیہ کا شجرہ نسب پیش کیا، لیکن ان کی جعلسازی بروقت پکڑی گئی۔ لیکن یہ لوگ پھر بھی اپنے قول و فعل سے باز نہیں آرہے ان میں سے دو شخص (باپ بیٹا) ان بزرگ کی درگاہ کے خودساختہ گدی نشین بھی بن بیٹھے ہیں اور تعویذات و عملیات کا کام بھی کرتے ہیں۔ برائے کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں اپنے فتوٰی سے مستفید فرمائیں کہ ان جعلسازوں کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم نافذ ہوتا ہے؟

  • سائل: صاحبزادہ عمر اویس شاہمقام: اسلام آباد
  • تاریخ اشاعت: 28 فروری 2020ء

زمرہ: معاشرت

جواب:

اسلام میں نسب تبدیل کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے اور ایسا کرنے پر سخت وعید بھی آئی ہے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَی لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا کَفَرَ وَمَنِ ادَّعَی قَوْمًا لَيْسَ لَهُ فِيهِمْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.

جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔

  1. بخاري، الصحيح، كتاب المناقب، باب نسبة اليمن إلى إسماعيل، 3: 1292، رقم: 3317، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، كتاب الإيمان، باب بيان حال إيمان من رغب عن أبيه وهو يعلم، 1: 79، رقم: 61، دار إحياء التراث العربي

اس حدیث کی شرح میں علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

وَفِي الْحَدِيثِ تَحْرِيمُ الِانْتِفَاءِ مِنَ النَّسَبِ الْمَعْرُوفِ وَالِادِّعَاءِ إِلَى غَيْرِهِ وَقَيَّدَ فِي الْحَدِيثَ بِالْعِلْمِ وَلَا بُدَّ مِنْهُ فِي الْحَالَتَيْنِ إِثْبَاتًا وَنَفْيًا لِأَنَّ الْإِثْمَ إِنَّمَا يَتَرَتَّبُ عَلَى الْعَالِمِ بِالشَّيْءِ الْمُتَعَمِّدِ لَهُ.

اس حدیث میں کسی معروف نسب سے تعلق کا دعویٰ کرکے انتفاء و اغراض مقاصد حاصل کرنا حرام ہے، اور حرام اسی وقت ہوگا جب کوئی ایسا قصدا اور جانتے ہوئے کرے، کیونکہ گناہ کا ترتب تب ہی ہوگا جب اس کو جانتے ہوئے اور قصداً کیا جائے۔

عسقلاني، فتح الباري، 6: 541، بيروت: دار المعرفة

ایک حدیث میں ہے کہ ایسے شخص پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے:

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ انْتَسَبَ إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ أَوْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اﷲ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔

ابن ماجه، السنن، كتاب الحدود، باب من ادعى إلى غير أبيه أو تولى غير مواليه، 2: 870، رقم: 2609، بيروت: دار الفكر

درج بالا روایات سے معلوم ہوا کہ جان بوجھ کر اپنا نسب بدلنا اور خود کو اپنے اصلی نسب کی بجائے کسی اور سے منسوب کرنا حرام ہے۔ سوال میں مذکور شخص نے بھی اگر واقعتاً جان بوجھ کر اپنا نسب تبدیل کیا ہے تو حرام عمل کیا ہے جس پر وہ خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہے۔ اس کی دیگر جعلسازیاں بھی قابلِ مذمت اور ناجائز ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی