کیا مُکرَہ کی زبانی طلاق شرعاً معتبر ہے؟


سوال نمبر:5643
السلام علیکم مفتی صاحب! كيا مُكْرَہ کی زبانی طلاق واقع ہو جاتی ہے؟ کیونکہ میں نے سنا ہے کہ احناف کے نزدیک جبرو اکراہ کی صورت میں تحریری طلاق واقع نہیں ہوتی جبکہ زبانی طلاق لے لی جائے تو واقع ہو جاتی ہے۔ مہر بانی فرما کر مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

  • سائل: حافظہ سعدیہمقام: باغبانپورہ، لاہور
  • تاریخ اشاعت: 26 دسمبر 2019ء

زمرہ: طلاق

جواب:

مُكْرَہ ایسے شخص کو کہتے ہیں جس سے زبردستی دھمکی کے ذریعہ سے کوئی ایسا کام کروایا جائے جسے وہ سخت ناپسند کرتا ہو اور وہ شخص اس کام کو کرنا بھی نہ چاہتا ہو لیکن دھمکی، خوف اور ڈر کے مارے اُسے وہ کام کرنا پڑے۔ جیسا کہ ابو منصور محمد بن احمد مکرہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں:

وَأمْرةٌ كَرِيْهٌ: مَكْرُوْهٌ، وَامْرَأَةٌ مُسْتَكْرَهَةٌ إِذا غُصِبَتْ نَفْسُهَا، وَأَكْرَهْتُ فلَاناً: حَمَلْتُهُ عَلَى أَمْرٍ هُوَلَهُ كَارِهٌ، وَالْكَرِيْهَةُ الشِدَّةِ فِي الْحَرْبِ، وَكَذَلِكَ كَرَايِهُ الدَّهْرِ: نَوَازِلُ الدَّهْرِ.

مکروہ وناپسندیدہ بات، عورت کو مکرہ کیا گیا، جب اس کے نفس کو غصب کیا جائے، میں نے فلاں کو مکرہ کیا، اسے اس کی ناپسندیدہ بات پر مجبور کیا۔ جنگ میں شدّت، یونہی زمانے کے مصائب وآلام۔

الأزهري، تهذيب اللغة، 6: 11، بيروت: دار إحياء التراث العربي

صاحبِ العین خلیل بن احمد الفراھیدی اور ابن منظور الافریقی بیان کرتے ہیں:

وَأَكْرَهْتُهُ حَمَلْتُهُ عَلَى أَمْرٍ وَّهُوَ كَارِهٌ.

میں نے اسے ایسے کام پر مجبور کیا جس کو وہ ناپسند کرتا تھا۔

  1. فراهيدي، العين، 3: 376، دار ومكتبة الهلال
  2. ابن منظور، لسان العرب، 13: 535، بيروت: دار صادر

عبد العزیز بن احمد بن محمد، علاء الدین بخاری حنفی شرح اصول بزدوی کشف الاسرار میں اکراہ کی تعریف لکھتے ہیں:

حَمْلُ الْغَيْرِ عَلَى أَمْرٍ يَمْتَنِعُ عَنْهُ بِتَخْوِيفٍ يَقْدِرُ الْحَامِلُ عَلَى إيقَاعِهِ وَيَصِيرُ الْغَيْرُ خَائِفًا بِهِ.

آدمی جس کام سے باز رہنا چاہتا ہو، اس کو اس کے نہ کرنے پر ایسی دھمکی کے ذریعہ مجبور کرنا جس کے کر گزرنے پر آمادہ کرنے والا قادر ہو اور دوسرا شخص اس کی دھمکی سے خوف ذدہ ہو۔

علاء الدين، كشف الأسرار، 4: 538، بيروت: دار الكتب العلمية

یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ بصورتِ جبرو اکراہ اور اضطرار، احکام شرع میں رعایت و سہولت ہوتی ہے۔ دین میں تنگی نہیں ہے۔ اس حوالے سے چند ارشاداتِ الہٰی درج ذیل ہیں:

مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ.

اﷲ نہیں چاہتا کہ تم پر کچھ تنگی رکھے۔

المائدة، 5: 6

باری تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمایا:

وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ.

اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔

الحج، 22: 78

اور سورۃ الاحزاب میں فرمایا:

كَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ.

تاکہ مسلمانوں پر کچھ حرج نہ رہے۔

الأحزاب، 33: 37

اور دوسرے مقام پر فرمایا:

مَا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ.

نبی پر کوئی حرج نہیں اس بات میں جو اللہ نے اس کے لیے مقرر فرمائی۔

الأحزاب، 33: 38

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حالتِ مجبوری اور اکراہ میں حرام کردہ چیزیں کھا کر جان بچانے کی رخصت رکھی ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌo

تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا (جانور) اور (دھار دار آلے کے بغیر کسی چیز کی) ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور (کسی جانور کے) سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ (جانور) جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے (مرنے سے پہلے) تم نے ذبح کر لیا، اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لیے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم پانسوں (یعنی فال کے تیروں) کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرو (یا حصے تقسیم کرو)، یہ سب کام گناہ ہیں۔ آج کافر لوگ تمہارے دین (کے غالب آجانے کے باعث اپنے ناپاک ارادوں) سے مایوس ہو گئے، سو (اے مسلمانو!) تم ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔ پھر اگر کوئی شخص بھوک (اور پیاس) کی شدت میں اضطراری (یعنی انتہائی مجبوری کی) حالت کو پہنچ جائے (اس شرط کے ساتھ) کہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو (یعنی حرام چیز گناہ کی رغبت کے باعث نہ کھائے) تو بے شک اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

المائدة، 5: 3

حافظ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

فَمَنِ احْتَاجَ إِلَى تَنَاوُلِ شَيْءٍ مِنْ هَذِهِ الْمُحَرَّمَاتِ الَّتِي ذَكَرَهَا تَعَالَى لِضَرُورَةٍ أَلْجَأَتْهُ إِلَى ذَلِكَ، فَلَهُ تَنَاوُلُ ذَلِكَ، وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ لَهُ؛ لِأَنَّهُ تَعَالَى يَعْلَمُ حَاجَةَ عَبْدِهِ الْمُضْطَرِّ، وَافْتِقَارَهُ إِلَى ذَلِكَ، فَيَتَجَاوَزُ عَنْهُ وَيَغْفِرُ لَهُ. وَفِي الْمُسْنَدِ وَصَحِيحِ ابْنِ حبَّان، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ أَنْ تُؤْتَى رُخْصته كَمَا يَكْرَهُ أَنْ تُؤْتَى مَعْصِيته لَفْظُ ابْنِ حِبَّانَ. وَفِي لَفْظٍ لِأَحْمَدَ مَنْ لَمْ يَقْبَلْ رُخْصَة اللَّهِ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلَ جِبَالِ عَرَفَةَ.وَلِهَذَا قَالَ الْفُقَهَاءُ: قَدْ يَكُونُ تَنَاوَلُ الْمَيْتَةِ وَاجِبًا فِي بَعْضِ الْأَحْيَانِ، وَهُوَ مَا إِذَا خَافَ عَلَى مُهْجَتِهِ التَّلَفَ وَلَمْ يَجِدْ غَيْرَهَا، وَقَدْ يَكُونُ مَنْدُوبًا، وَ قَدْ يَكُونُ مُبَاحًا بِحَسْبِ الْأَحْوَالِ.

جیسے ان حرام چیزوں میں سے جن کا اللہ نے ذکر کیا ہے کسی کے کھانے کی ضرورت پڑ جائے تو وہ مجبوراً انہیں کھا سکتا ہے، اور اسے اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اس لئے کہ اللہ اپنے بے بس بندے کی مجبوری اور محتاجی کو خوب جانتا ہے۔ لہٰذا وہ بخشتا اور در گذرفرماتا ہے۔ مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی اپنی رخصت پر عمل کرنے کو ایسے ہی پسند فرماتا ہے جیسے اپنی نافرمانی کو ناپسند فرماتا ہے جیسے اپنی نا فرمانی پر ناراض ہوتا ہے ۔ اور امام احمد کے الفاظ ہیں کہ جو شخص اللہ کی رخصت و رعایت کو قبول نہ کرے اس پر میدان عرفات کے پہاڑوں جتنا گناہ ہے اسی لئے فقہاء نے کہاکبھی مردار کھانا واجب ہو جاتا ہے اور وہ اس حال میں کہ بھوک سے مرنے کا خوف ہو اور کچھ کھانے کو نہ ملے، کبھی مستحب اور کبھی مباح اس کا مدار حالات پر ہے۔

ابن كثير، تفسير القرآن العظيم، 2: 15، بيروت: دار الفكر

امام قرطبی فرماتے ہیں:

يَعْنِي مَنْ دَعَتْهُ ضَرُورَةٌ إِلَى أَكْلِ الْمَيْتَةِ وَسَائِرِ الْمُحَرَّمَاتِ فِي هَذِهِ الْآيَةِ. وَالْمَخْمَصَةُ الْجُوعُ وَخَلَاءُ الْبَطْنِ مِنَ الطَّعَامِ.

یعنی جس آدمی کو ضرورت پڑ جائےمردار اور باقی حرام کھانوں کی جو اس آیت میں مذکورہیں۔ اور مخمصة سے مراد بھوک اور پیٹ کا کھانے سے خالی ہونا ہے۔

قرطبي، الجامع لأحكام القرآن، 6: 64، القاهرة: دار الشعب

قاضی بیضاوی اور محمد بن محمد بن مصطفى العمادی فرماتے ہیں:

قَصَرَ حُرْمَتُهُ عَلَى حَالِ الْإخْتِيَارِ كَأَنَّهُ قِيْلَ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ هَذِهِ الْأَشْيَاءِ مَالَمْ تَضْطَرُوْا إِلَيْهَا.

ان حرام چیزوں کو کھانا صرف حالت اختیار میں مخصوص ہے، گویا فرمایا گیا یہ تمام چیزیں تم پر حرام اس وقت ہیں جب تم ان کے کھانے کے لئے مجبور و بے بس نہ ہو، اگر مجبور و بے بس ہو تو ان حرام چیزوں کا کھانا تم پر حرام نہیں۔

  1. بيضاوي، أنوار التنزيل وأسرار التأويل، 1: 450، بيروت: دار الفكر
  2. العمادي، إرشاد العقل السلیم إلی مزایا القرآن الکریم، 1: 191، بيروت: دار إحياء التراث العربي

قاضی بیضاوی مزید فرماتے ہیں:

وَالْمَعْنَى فَمَنِ اضْطُرَّ إِلَى تَنَاوُلِ شَيْءٍ مِنْ هَذِهِ الْمُحَرَّمَاتِ فِي مَخْمَصَةٍ (مَجَاعَةٍ) غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ غَيْرَ مَائِلٍ لَهُ وَمُنْحَرِّفٍ إِلَيْهِ بِأَنْ يَأْكُلَهَا تَلَذُّذًا أَوْ مَجَاوِزًا حَدَّ الرُّخْصَةِ كَقَوْلِهِ: غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُوْرٌ رَحِيْمٌ لَا يُؤَاخِذُهُ بِأَكْلِهِ.

مطلب یہ ہے کہ جو شخص مجبور و بے بس ہو ان مذکورہ اشیاء کے بوقت بھوک کھانے میں گناہ کی طرف مائل نہ ہو کہ مزے اور چٹخارے کے لئے کھائے یا حد رخصت سے آگے بڑھ جائے، تو ان اشیاء کے کھانے پر اللہ مواخذہ نہیں فرماتا۔

بيضاوي، أنوار التنزيل وأسرار التأويل، 2: 295

اگر کوئی شخص اپنی جان، مال عزت بچانے کے لئے کلمہ کفر بول دے مگر اس کا دل ایمان اور اطمینان سے لبریز ہو تو ایسی حالت میں کلمہ کفر بولنے پر وہ کافر نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ کفر کہنے کی رخصت عطا فرمائی ہے:

مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌo

جو شخص اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کرے، سوائے اس کے جسے انتہائی مجبور کر دیا گیا مگر اس کا دل (بدستور) ایمان سے مطمئن ہے، لیکن (ہاں) وہ شخص جس نے (دوبارہ) شرحِ صدر کے ساتھ کفر (اختیار) کیا سو ان پر اللہ کی طرف سے غضب ہے اور ان کے لیے زبردست عذاب ہے۔

النحل، 160: 106

حافظ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

{إِلا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإيمَانِ} فَهُوَ اسْتِثْنَاءٌ مِمَّنْ كَفَرَ بِلِسَانِهِ وَوَافَقَ الْمُشْرِكِينَ بِلَفْظِهِ مُكْرَهًا لِمَا نَالَهُ مِنْ ضَرْبٍ وَأَذًى، وَقَلْبُهُ يَأْبَى مَا يَقُولُ، وَهُوَ مُطَمْئِنٌ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ. وَقَدْ رَوَى العَوفِيّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي عمَّار بْنِ يَاسِرٍ، حِينَ عَذَّبَهُ الْمُشْرِكُونَ حَتَّى يَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَافَقَهُمْ عَلَى ذَلِكَ مُكرَها وَجَاءَ مُعْتَذِرًا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَةَ... فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ تَجِدُ قَلْبَكَ؟ قَالَ: مُطَمْئِنًا بِالْإِيمَانِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ عَادُوا فَعُدْ.

{سوائے اس کے جسے انتہائی مجبور کر دیا گیا مگر اس کا دل (بدستور) ایمان سے مطمئن ہے} یہ استثناء ہے اس شخص کا جس نے زبان سے کفر کیا اور حالت مجبوری میں مشرکوں سے موافقت کی، اس وجہ سے کہ اُسے مارپٹائی اور ایذاء دی گئی، اور اس کا دل اس کی بات سے انکاری تھا، وہ اللہ ورسول پر ایمان پر مطمئن تھا۔ العوفی نے ابن عباس سے روایت کی کہ یہ آیت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی، جب مشرکوں نے ان پر تشدد کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کرے تو انہوں نے مجبوراً ان سے موافقت کی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عذر پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔۔۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے دل کا حال بتاؤ کیسا تھا؟ عرض کی ایمان سے مطمئن۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا: اگر دوبارہ یہی کچھ یعنی دوبارہ تشدد کریں تو تم بھی دوبارہ یہی کچھ کرنا۔

ابن كثير، تفسير القرآن العظيم، 2؛ 588

اسی طرح امام قرطبی بیان کرتے ہیں کہ قریش نے حضرت عمار اور ان کے ماں باپ یاسر اور سمیّہ کو مرتد ہونے پر مجبور کیا تو بی بی سمیّہ رضی اللہ عنہا کو دو اونٹوں کے درمیان باندھ کر نیزہ اُن میں گارڈ دیا اور کہا کہ تو مردوں کی خاطر مسلمان ہوئی ہے۔ اس بی بی اور اس کے خاوند حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا، اسلام میں یہ دو پہلے شہید ہیں۔ رہ گئے عمار تو انھوں نے مجبور ہو کر جان بچانے کے لئے زبان سے ان کا مطالبہ پورا کر دیا۔ پھر خود سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور اس کی شکایت کر دی اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : دل کا حال بتاؤ، کیا تھا؟ عرض کی حضور: دل ایمان پر مطمئن ہے ، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر دوبارہ ایسا کریں تو تم بھی ویسا ہی کرنا۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

كُلُّنَا تَكَلَّمَ بِالَّذِي قَالُوا لَوْلَا أَنَّ اللَّهَ تَدَارَكَنَا غَيْرَ بِلَالٍ.

اگر اللہ نہ بچاتا تو بلال رضی اللہ عنہ کے سوا ہم سب، ان کفار کے جبر کے سامنے کلمہ کفر بول دیتے۔

قرطبي، الجامع لأحكام القرآن، 10: 181

یہ دلیل ہے کہ مجبور کرنے پر کلمہ کفر جائز ہے بشرطیکہ دل ایمان پر مطمئن ہو۔ ابن العربی اور امام قرطبی اسی آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

لَمَّا سَمَحَ اللَّهُ تَعَالَى فِي الْكُفْرِ بِهِ، وَهُوَ أَصْلُ الشَّرِيعَةِ، عِنْدَ الْإِكْرَاهِ، وَلَمْ يُؤَاخِذْ بِهِ، حَمَلَ الْعُلَمَاءُ عَلَيْهِ فُرُوعَ الشَّرِيعَةِ، فَإِذَا وَقَعَ الْإِكْرَاهُ عَلَيْهَا لَمْ يُؤَاخَذْ بِهِ، وَلَا يَتَرَتَّبُ حُكْمٌ عَلَيْهِ، وَعَلَيْهِ جَاءَ الْأَثَرُ الْمَشْهُورُ عِنْدَ الْفُقَهَاءِ: رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ وَمَا اُسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ.

جب اللہ نے حالت اکراہ میں کفر کی اجازت دے دی اور اس پر مواخذہ نہ کیا حالانکہ وہ شریعت کی اصل ہے تو علماء نے تمام فروعِ شرع کو، اسی پر قیاس کیا، سو جب ان امور پر کسی کو مجبور کیا جائے تو، اس مکراہ پر کوئی مواخذہ نہیں۔اور نہ اس پر کوئی حکم مرتب ہو گا۔ اور فقہاء کے ہاں حدیث مشہور بھی اسی کی تائید کرتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ: میری امت سے خطاء بھول اور جس کام پر اسے مجبور کیا جائے اور وہ جبر و اکراہ کے نتیجہ میں وہ کام کر بیٹھے اس پر گناہ کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔

  1. ابن العربي، أحكام القرآن، 3: 163، بيروت، لبنان: دار الفكر
  2. قرطبي، الجامع لأحكام القرآن، 10: 182

امام قرطبی مزید فرماتے ہیں:

أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ مَنْ أُكْرِهَ عَلَى الْكُفْرِ حَتَّى خَشِيَ عَلَى نَفْسِهِ الْقَتْلَ، أَنَّهُ لَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنْ كَفَرَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ، وَلَا تَبِينُ مِنْهُ زَوْجَتُهُ وَلَا يُحْكَمُ عَلَيْهِ بِحُكْمِ الْكُفْرِ، هَذَا قَوْلُ مَالِكٍ وَالْكُوفِيِّينَ وَالشَّافِعِيِّ.

علماء کا اس پر اتفاق و اجماع ہے کہ جس شخص کو کفر پر مجبور کیا گیا، یہاں تک کہ اسے اپنے قتل کا خوف ہو گیا تو اس پر کفر کرنے پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو نہ اس کی بیوی اس پر حرام ہو گی اور نہ اس پر کافر ہونے کا کوئی حکم لگایا جائے گا۔ یہ قول امام مالک، امام شافعی اور اھل کوفہ کا ہے۔

قرطبي، الجامع لأحكام القرآن، 10: 182

جب جبر واکراہ کی صورت میں کلمہ کفر بولنے سے بندہ کافر نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں بیوی کو طلاق کیسے ہو سکتی ہے۔ نص قطعی کے مقابلے میں قیاس و اجتہاد قطعًا مردود ہے۔ لہٰذا چھری، خنجر، لاٹھی یا گن کے زور پر کسی سے زبانی یا تحریری طلاق لینے سے طلاق ہرگز ہرگز نہ ہو گی، جیسے کلمہ کفر پر مجبور کیا گیا، شخص کلمہ کفر بولنے سے کافر نہیں ہوتا ایسے ہی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کئے گئے شخص کی طلاق نہیں ہوتی۔ امام قرطبی نے ہی آگے چل کر بیان کیا ہے کہ مکرہ کی طلاق اور عتاق کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے:

امام شافعی اور ا ن کے اصحاب مکرہ کی طلاق نافذ نہیں کرتے۔ ابن وہب نے ذکر کیا کہ حضرت عمر، حضرت علی اور ابن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک مکراہ کی طلاق نہیں ہوتی۔ یہی قول عبداللہ بن زبیر، ابن عمر، ابن عباس، عطاء، طاؤس، حسن، شریح، القاسم، سالم، مالک، اوزاعی، امام احمد، اسحاق، ابو ثور رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہے۔ جبکہ الشعبی، النخعی، ابو قلابہ، الزھری، قتادہ اور اہل کوفہ، امام ابو حنیفہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک مکرہ کی طلاق ہو جاتی ہے۔

قَالَ الشَّافِعِیُ رَحِمَهُ اﷲ طَلَاق المُکْرَہ لَا یَقَعُ وَقَالَ أبُو حَنِیفَة رَحِمَهُ اﷲ یَقَعُ.

امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا مکرہ کی طلاق واقع نہیں ہوتی، اور امام ابو حنیفہ رحمہ نے کہا ہو جاتی ہے۔

قرطبي، الجامع لأحكام القرآن، 10: 184

امام شافعی رحمہ اللہ کی دلیل اللہ تعالیٰ کا قول ہے:

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ.

دین میں کوئی جبر نہیں۔

البقرة، 2: 256

دوسری دلیل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

وُضِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ.

میری امت سےخطاء، نسیان اور جبر و اکراہ اٹھا لئے گئے ہیں۔

سنن ابن ماجه. 1: 659، رقم: 2045

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا طَلَاقَ، وَلَا عَتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ.

جبراً نہ طلاق ہوتی ہے اور نہ ہی عتاق۔

  1. سنن ابن ماجه، 1: 660، رقم: 2046
  2. الرازي، التفسير الكبير، 20: 99، بيروت: دار الكتب العلمية

حضرت ثابت بن الاحنف کی روایت مکرہ کی زبانی طلاق واقع نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اس کی سند بھی صحیح ہے۔ اور اس روایت کو امام مالک بن انس نے الموطأ میں نقل کیا ہے:

عَنْ ثَابِتِ بْنِ الْأَحْنَفِ أَنَّهُ تَزَوَّجَ أُمَّ وَلَدٍ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ فَدَعَانِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، فَجِئْتُهُ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَإِذَا سِيَاطٌ مَوْضُوعَةٌ، وَإِذَا قَيْدَانِ مِنْ حَدِيدٍ، وَعَبْدَانِ لَهُ قَدْ أَجْلَسَهُمَا، فَقَالَ: طَلِّقْهَا وَإِلَّا وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ فَعَلْتُ بِكَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَقُلْتُ: هِيَ الطَّلَاقُ أَلْفًا، قَالَ: فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهِ، فَأَدْرَكْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ بِطَرِيقِ مَكَّةَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي كَانَ مِنْ شَأْنِي، فَتَغَيَّظَ عَبْدُ اللَّهِ وَقَالَ: لَيْسَ ذَلِكَ بِطَلَاقٍ وَإِنَّهَا لَمْ تَحْرُمْ عَلَيْكَ، فَارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ، قَالَ: فَلَمْ تُقْرِرْنِي نَفْسِي حَتَّى أَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ بِمَكَّةَ أَمِيرٌ عَلَيْهَا، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي كَانَ مِنْ شَأْنِي، وَبِالَّذِي قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: فَقَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ: لَمْ تَحْرُمْ عَلَيْكَ فَارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ.

حضرت ثابت بن الاحنف سے روایت ہے کہ میں نے عبد الرحمٰن بن زید بن الخطاب کی ام ولد لونڈی سے نکاح کیا۔ میں اس کے پاس آیا اور اس پر داخل ہوا تو کوڑے لٹکے ہوئے تھے۔ لوہے کی دو بیڑیاں تھیں اور دوغلام بٹھائے ہوئے تھے۔ اس نے مجھے کہا: اپنی بیوی کو طلاق دے دو ورنہ اللہ کی قسم تجھے ایسا ایسا کر دوں گا۔ میں نے کہا: اسے ایک ہزار طلاق۔ میں اس کے پاس سے نکلا تو مکہ کے راستے میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان کو اپنا سارا واقعہ سنایا تو وہ غصے ہو گئے اور فرمایا: یہ کوئی طلاق نہیں۔ وہ عورت تجھ پر حرام نہیں ہوئی، تُو اپنی بیوی کی طرف لوٹ جا۔ مجھے اطمینان نہ ہوا یہاں تک کہ میں سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس آ گیا اور ان سے اپنا واقعہ اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی بات کا ذکر کیا۔ انہوں نے بھی کہا کہ تیری بیوی تجھ پر حرام نہیں ہوئی، تُو اپنی بیوی کی طرف لوٹ جا۔

إمام مالك، الموطأ، كتاب الطلاق، باب جامع الطلاق، 2: 587، رقم: 1220، مصر: دار إحياء التراث العربي

لہٰذا میرے نزدیک مُکْرَہ کی زبانی طلاق قرآن و سنت اور مذکورہ بالا اکابرین کے اقوال کے مطابق واقع نہیں ہوتی کیونکہ اجتہادی اقوال کو قرآن وسنت کی تصریحات پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔

جن فقہاء احناف نے مکرہ کی زبانی طلاق کو جائز قرار دیا ہے، انہوں نے دو روایات کی بنیاد پر طلاق واقع ہونے کا استدلال کیا ہے۔ ایک روایت یہ ہے:

عَنْ صَفْوَانَ بْنِ غَزْوَانِ الطَّائِيِّ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ نَائِمًا مَعَ امْرَأَتِهِ فَقَامَتْ فَأَخَذَتْ سِكِّينًا فَجَلَسَتْ عَلَى صَدْرِهِ وَوَضَعَتِ السِّكِّينَ عَلَى حَلْقِهِ وَقَالَتْ لَهُ: طَلِّقْنِي وَإِلَّا ذَبَحْتُكَ، فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا فَذُكِرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَا قَيْلُولَةَ فِي الطَّلَاقِ.

صفوان بن غزوان سے حدیث مروی ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ سویا ہوا تھا وہ اٹھی اور چھری لے کر خاوند کے سینہ پر بیٹھ گئی پھر خاوند کے حلق پر چھری رکھ کر بولی مجھے طلاق دیدے ورنہ تجھے ذبح کر دوں گی۔ خاوند نے اسے اللہ کا واسطہ دیا، مگر وہ نہ مانی، خاوند نے تین طلاق دیدیں، یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور ذکر کی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :طلاق میں قیلولہ (بات کو منسوخ کرنا) نہیں ہے۔

عسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، 3: 437، رقم: 4087، بيروت: دار الجيل

آئمہ کا تبصرہ

اَئمہ فنِ حدیث اور محدثین کرام نے اس روایت پر تبصرہ کیا ہے:

  • امام بخاری کہتے ہیں اس روایت کے ایک راوی الغار بن جبلہ کی روایت منکر ہے۔

عسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، 3: 437، رقم: 4087، بيروت: دار الجيل

  • صفوان بن رستم نے روح بن القاسم سے روایت کی جو مجہول ہے۔ الازدی نے کہا وہ منکر الحدیث ہے۔
  • صفوان بن عاصم الاصم بعض صحابہ سے طلاق مکرہ کے بارے میں روایت کرتا ہے۔ ابن ابی حاتم نے کہا قوی نہیں۔ بخاری نے کہا اس کی روایت منکر ہے۔ اس کی متابعت میں کوئی روایت نہیں ( جو اس کی کمزوری کی تلافی کرے)۔۔۔ عن رجل من الصحابہ معلوم نہیں وہ رجل کون ہے؟ یہی صفوان بن عاصم الاصم حدثنا رجل یہاں بھی وہ جہالت ہے۔
  • صفوان بن قبیصہ عن طارق بن شہاب اور اس سے ابو الصیرفي یہ آخری دونوں راوی مجہول ہیں۔ ابن حبان نے الثقات میں کہا صفوان بن قبیصہ، طارق بن شہاب سے روایت لے لیتا ہے اگر خود اس سے سنے۔
  • ابن ابی حاتم نے امام ابو زرعہ رازی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ میں نہیں جانتا وہ کون ہے؟ میں نے کہا شاید صفوان بن ھبیرہ ہو، جس نے یہ روایت نقل کی ہے۔

عسقلاني، لسان الميزان، 3: 191، رقم: 764، بيروت: مؤسسة الأعلمي

  • امام بخاری نے کہا صفوان الاصم کی صحابہ کرام سے روایت درست نہیں، اس کی موئید کوئی روایت نہیں ہے۔

عبدالرحمن بن علي الجوزي، العلل المتناهية، 2: 648، رقم: 1074، بيروت: دارالكتب العلمية

  • عبد الرحمٰن بن ابی حاتم، الغار بن جبلہ کو منکر الحدیث کہتے ہیں۔

ابن أبی حاتم، الجرح والتعديل، 7: 58، رقم: 337، بيروت: دار إحياء التراث العربي

  • حدیث منکر ہے کوئی صحیح روایت اس کی تائید میں نہیں ہے۔
  1. شمس الدين، تنقيح تحقيق أحاديث التعليق، 3: 216، رقم: 1879، بيروت: دارالكتب
  2. العقيلي، الضعفاء الكبير، 2: 211، رقم: 745، بيروت: دارالمكتبة العلمية
  3. ابن القطان، بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام، 2: 55، الرياض: دار طيبة
  • اما ابو زرعہ رازی نے کہا: هَذَا حَدِيْثٌ وَاهٍ جِدًّا. یہ بہت کمزور روایت ہے۔

عبدالرحمن بن محمد، علل الحديث، 1: 436، رقم: 1312، بيروت: دارالمعرفة

  • ابو محمد ابن حزم نے کہا: هَذَا خَبَرٌ فِي غَايَةِ السُّقُوطِ. یہ حدیث حد درجہ ضعیف ہے۔

ابن حزم، المحلى، 10: 203، بيروت: دار الأفاق الجديدة

  • عبد الرحمٰن بن علی بن الجوزی کہتے ہیں: هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ. یہ حدیث ثابت نہیں ہے۔

ابن الجوزی، العلل المتناهية، 2: 648، بيروت: دار الكتب العلمية

خلاصہ کلام

یہ ایک ایسی روایت ہے جس کی کوئی سند متصل نہیں، مجہول اور ساقط الاعتبار لوگوں کے بیانات ہیں ، ایسی کمزور باتوں کی حکم شرعی کے ثبوت میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ دوسری طرف جبر واکراہ کی صورت میں کفریات کا اعتبار نہیں یعنی کوئی کسی مسلمان سے گن پوائنٹ پر کلمات کفر یا شرک کہلوائے، مسلمان مجبور ہے جان یا عزت، قتل یا عضو کٹنے کی دھمکی ہے۔ اس حالت میں اپنی جان وعزت بچانے کی خاطر کلمہ کفر کہنے کی اجازت ہے بشرطیکہ دل و دماغ ایمان پر مضبوطی سے قائم و مطمئن ہے تو کلمہ کفر بولنے کی مسلمان کو اجازت ہے اور وہ کلمہ کفر بولنے سے ہرگز ہرگز کافر و مرتد نہ ہوگا ، نہ اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکلے گی تو جب کفرو ارتداد جیسا بڑا گناہ جان بچانے کے لئے مذکورہ صورت میں گناہ نہیں رہتا اور کلمہ کفر بحالت جبرواکراہ جائز ہو جاتا ہے تو طلاق تو اس کے مقابلہ میں جرم و گناہ ہے ہی نہیں، اس میں یہ رعایت کیوں نہیں دی جا سکتی جبکہ یہ ہمارا اجتہاد نہیں قرآن کریم کی نص قطعی ہے۔

نوٹ: بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ اس حدیث سے استدلال کرنا درست ہے تو پھر بھی اس روایت سے یہ مسئلہ اخذ ہوتا ہے کہ جب بیوی شوہر کے ساتھ رہنا پسند ہی نہ کرے تو اُسے طلاق دے دینا بہتر ہے اور اس کی جبراً لی ہوئی طلاق بھی جائز ہو گی کیونکہ جب ثابت بن قیس کی بیوی نے اُن کے ساتھ نہ رہنا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حق مہر واپس کروا کر طلاق دینے کا حکم فرمایا اور اسی طرح خنساء بنت خِذام انصاریہ کو شوہر پسند نہیں تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کا نکاح منسوخ فرمادیا لیکن جب میاں بیوی اپنا گھر بسانا چاہتے ہوں مگر دوسرے لوگ زبردستی ڈرا دھمکا کر طلاق کے الفاظ کہلوا دیں تو مذکورہ روایت کا اطلاق کرنا مناسب نہ ہوگا۔

دوسری روایت جس کی بنیاد پر مکرہ کی زبانی طلاق جائز قرار دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ثَلاَثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ النِّكَاحُ وَالطَّلاَقُ وَالرَّجْعَةُ.

تین چیزیں ایسی ہیں کہ ارادہ کے ساتھ کی جائیں یا مذاق میں کی جائیں (دونوں صورتوں میں) صحیح مراد ہیں: نکاح، طلاق اور رجوع۔

  1. أبو داود، السنن، كتاب الطلاق تفريع أبواب الطلاق، باب في الطلاق على الهزل، 2: 259، رقم: 2194، بيروت: دار الفكر
  2. ترمذي، السنن، كتاب الطلاق واللعان، باب ما جاء في الجد والهزل في الطلاق، 3: 490، رقم: 1184، بيروت: دار إحياء التراث العربي

مکرہ کی طلاق کو اس روایت کے ساتھ جوڑنا بعید از حقیقت ہے کیونکہ ایک شخص پر ظلم، زیادتی، مار پیٹ، زبردستی، خوف وہراس اور دھمکیوں کے ساتھ طلاق مسلط کی جائے اور دوسری طرف کوئی شخص بلاوجہ بغیر کسی خوف اور ڈر کے طلاق دیدے تو برابر نہیں ہے۔ لہٰذا مکرہ کی زبانی طلاق کو مذاق میں دی ہوئی طلاق پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ یہی امام قرطبی فرماتے ہیں:

وَهَذَا قِيَاسٌ بَاطِلٌ، فَإِنَّ الْهَازِلَ قَاصِدٌ إِلَى إِيقَاعِ الطَّلَاقِ رَاضٍ بِهِ، وَالْمُكْرَهُ غَيْرُ رَاضٍ وَلَا نِيَّةَ لَهُ فِي الطَّلَاقِ، وَقَدْ قَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ:"إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ".

یہ قیاس باطل ہے، کیونکہ مذاق کرنے والا طلاق واقع کرنے کا ارادہ کرتا ہےاور اس پر راضی ہوتا ہے، جبکہ مجبور شخص راضی نہیں ہوتا، نہ ہی اس کی طلاق کے بارے میں کوئی نیت ہوتی ہے۔ فرمانِ نبی علیہ السلام ہے: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔

قرطبي، الجامع لأحكام القرآن، 10: 184

ابن قیم الجوزیہ مکرہ کی طلاق کو مذاق پر قیاس کرنے کے حوالے سے لکھتے ہیں:

وَهَذَا قِيَاسٌ فَاسِدٌ فَإِنَّ الْمُكْرَهَ غَيْرُ قَاصِدٍ لِلْقَوْلِ، وَلَا لِمُوْجِبِهِ، وَإِنَّمَا حُمِلَ عَلَيْهِ وَأُكْرِهَ عَلَى التَّكَلُّمِ بِهِ، وَلَمْ يُكْرَهْ عَلَى الْقَصْدِ. وَأَمَّا الْهَازِلُ فَإِنَّهُ تَكَلَّمَ بِاللَّفْظِ اخْتِيَارًا وَقَصَدَ بِهِ غَيْرَ مُوجِبه، وَهَذَا لَيْسَ إِلَيْهِ، بَلْ إِلَى الشَّارِع، فَهُوَ أَرَادَ اللَّفْظَ الَّذِي إِلَيْهِ، وَأَرَادَ أَنْ لَا يَكُوْنَ مُوجِبَهُ، وَلَيْسَ إِلَيْهِ، فَإِنَّ مَنْ بَاشَرَ سَبَب الْحُكْم بِاخْتِيَارِهِ لَزِمَهُ مُسَبَّبه وَمُقْتَضَاهُ، وَإِنْ لَمْ يُرِدْهُ. وَأَمَّا الْمُكْرَه فَإِنَّهُ لَمْ يُرِدْ لَا هَذَا وَلَا هَذَا، فَقِيَاسُهُ عَلَى الْهَازِلِ غَيْرُ صَحِيحٍ.

یہ قیاس فاسد ہے کیونکہ مجبور آدمی کی نیت نہ (طلاق) کہنے کی ہوتی ہے اور نہ اس کے نتیجے کی۔ لہٰذا اس کو محمول کیا جائے گا کہ اسے طلاق کہنے پر مجبور کیاگیا ہے نہ کہ نیت پرمجبور کیا گیا ہے۔جبکہ مذاق کرنے والا لفظ کا تکلم اپنے اختیار سے کرتا ہے لیکن اس کا نتیجہ کچھ اور مراد لیتا ہے۔ حالانکہ یہ کام (طلاق کا وقوع) اس کے اختیار میں نہیں، بلکہ شارع کے اختیار میں ہے۔ اس نے ارادہ اس لفظ کو بولنے کا کیا ہے، اور اس کا ارادہ یہ تھا کہ اس کا حکم ثابت نہ ہو۔ جو شخص طلاق کے سبب کو اختیار کرے گا، اس کا نتیجہ اس کو لازم ہو جائے گا، اگرچہ وہ اس کی نیت نہ بھی کرے۔ رہا مجبور کا تو اس نے کسی بھی چیز کا قصد نہیں کیا ہوتا، لہٰذا اس کو مذاق کرنے والے پر قیاس کرناصحیح نہیں ہے۔

ابن قيم الجوزية، تهذيب السنن، كتاب الطلاق، باب في الطلاق على الهزل، 2: 912، الرياض: مكتبة المعارف

مذکورہ بالا تصریحات سے ثابت ہوا کہ جب میاں بیوی باہمی رضامندی سے بطورِ زن وشوہر رہنا چاہتے ہوں تو کسی دوسرے کوجبرواکراہ کے ذریعہ سے اُن کے درمیان علیحدگی کروانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں مکرہ کی تحریری یا زبانی طلاق واقع نہ ہو گی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی