سوال نمبر:5611
السلام علیکم! میرے دو بڑے بھائيوں کی شادی خالہ کے گھر ہوئی، بڑے بھائی کی شادی پہلے ہوئی اور چھوٹے بھائی کی چند سال بعد ہوئی۔ بڑے بھائی صاحب کے 2 بیٹے اور 4 بیٹیاں ہیں، جبکہ چھوٹے بھائی کی شادی کے کچھ سال بعد ایک بیٹی پیدا ہوئی اور پیدا ہوتے ہی فوت ہو گئی پھر دو یا تین سال کے بعد اللہ نے ایک بیٹا عطا کیا اور بیٹے کی پیدایش کے چند دن بعد چھوٹی بھابھی کا انتقال ہو گیاـ بڑے بھائی صاحب اور بڑی بھابھی صاحبہ ان کے بچے کو اپنے گھر لے گئے اور کہا اس بچے کی پرورش ہم کریں گےـ چھوٹی بھابھی کی وفات کے بعد سب فیملی ممبر کی مرضی سے چھوٹے بھائی صاحب کی دوبارہ شادی ماموں کی بیٹی سے کردی جس سے ان کے ماشااللہ اب 2 بیٹے اور 4 بیٹیاں ہیں۔ اس بات کو تقریباً 20 سال گزر چکے ہیں اُس پہلے بچے کی عمر بھی اب تقریباً 20 سال ہو گئی ہے اور لاڈ پیار کی وجہ اس کی پڑھائی کی طرف بھی توجہ نہیں دی گئی۔ اب ہم سب بہن بھائیوں کو والدین کی وراثت سے حصہ ملنے لگا ہے، بڑے بھائی صاحب اور بڑی بھابھی صاحبہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس بچے کو اس کے باپ سے اس کا حصہ لے کر دینا ہے چھوٹے بھائی کا کوئی کاروبار نہیں ہے وہ لکڑی کا کام کر کے گھر کا خرچ چلاتے ہیں یعنی مزدوری کرتے ہیں اب جو والدین کی وراثت سے ان کو حصہ ملنے لگا ہے اس حصے سے وہ کہہ رہے ہیں ان کے بیٹےکو حصہ دلوانا ہےـ میرا سوال یہ ہے کہ شریعت کے لحاظ سے اس بچے کا کتنا حصہ بنتا ہے؟ قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ
- سائل: محمد منیرمقام: کویت
- تاریخ اشاعت: 22 جنوری 2020ء
جواب:
آپ لوگوں کے والدین کے ترکہ سے ان کی اولاد یعنی ان کے بیٹے اور بیٹیوں کو حصہ ملے
گا۔ والدین کی وراثت بیٹے کو چھوڑ کر پوتے کو نہیں ملے گی۔ اگر ورثاء اپنی خوشی و رضا
سے کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں لیکن آپ کے بڑے بھائی اور بھابھی زبردستی کسی غیر
وارث کو ترکے میں حصہ دار نہیں بنا سکتے۔ وہ بچہ اپنے والد کی جائیداد میں حصہ دار
ہوگا جس طرح اُس والد کی دوسری بیوی سے پیدا ہونے والے بچے اس ترکہ میں حقدار ہوں گے۔
المختصر یہ بچہ باپ کی موجودگی دادا دادی کے ترکہ میں حصہ دار نہیں ہے لیکن اپنے
والد کے ترکہ سے حصہ پائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔