جواب:
دین اسلام نے دنیا کے ہر خطے میں رہنے والے عاقل، بالغ اور مسلمان مرد و عورت پر ماہِ رمضان کے روزے فرض کئے ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ.
البقرة، 2 : 185
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) راہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں۔ پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے۔
فرض کی عدم ادائیگی قابلِ تعزیر ہے لیکن اسلام چونکہ بطور دین سہل العمل ہے۔ اس لئے اس میں جبر نہیں جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَآ اِکْرَاه فِی الدِّيْنِ.
البقرة، 2 : 256
دین میں کوئی زبردستی نہیں۔
اس لئے سفر، بیماری اور خواتین کو حالتِ حمل وغیرہ میں روزہ رکھنے میں رعایت دی گئی ہے۔ اگر ان حالتوں میں روزہ نہ رکھا جائے تو ان کے ختم ہونے کی مدت کے بعد رمضان کے چھوڑے گئے روزوں کی قضا کرنا ضروری ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔