قدرت رکھنے کے باجود قرض واپس نہ کرنے والے مقروض سے قطع تعلقی کرنا کیسا ہے؟


سوال نمبر:5581
السلام علیکم مفتی صاحب! ایک شخص کے بارے میں یہ واضح ثابت ہو جاتا ہے کہ اس نے فراڈ کیا ہے اور لوگوں کا اس نے کافی قرض دینا ہے اور وہ قرض کی واپسی پر اختیار بھی رکھتا ہے لیکن اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ پیسوں کی واپسی سے انکاری ہے۔ اس سلسلہ میں اس پر شرعی حکم کیا ہے؟ نیز یہ بھی وضاحت فرما دیں کہ جو اس غلط کام میں اس کا ساتھی اور ہمنوا بنے اس کے لئے شریعت کیا حکم دیتی ہے؟ کیا ایسے آدمی کے ساتھ اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا اور رہنا جائز ہے؟ اس سلسلہ میں جو اہم نکتہ درکار ہے وہ یہ کہ ایسے شخص کی طرف سے دوست احباب یا عزیز و اقربا کو کھلائے گئے کھانے کیا حرام کے زمرے میں آتے ہیں یا ہمارا ایسے آدمی سے کھانا کھانا جائز ہے؟ شکریہ

  • سائل: محمد سرفرازمقام: نامعلوم
  • تاریخ اشاعت: 15 جنوری 2020ء

زمرہ: قرض

جواب:

کسی کا مال لوٹنا، ناجائز طریقے یا دھوکے سے کسی کا مال ہتھیانا یا کسی کے مال پر قبضہ کرنا شرعاً ناجائز ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُواْ فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ.

اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)۔

البقرة، 2: 188

دوسرے مقام پر فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا.

اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔

النساء، 4: 29

جس طرح دھوکہ فراڈ سے دوسروں کا مال کھانا حرام ہے اسی مقروض کا وسعت کے باجود قرض واپس نہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فعل کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے شخص کا جنازہ پڑھانے سے انکار فرما دیتے جس پر قرض ہوتا تھا تاآنکہ کوئی شخص اُس کا قرض ادا کرنے یا قرض خواہ اُسے قرض معاف کرنے کا اعلان نہیں کر دیتا تھا۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک جنازہ لایا گیا تاکہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

هَلْ عَلَيْهِ مِنْ دَيْنٍ؟ قَالُوا: لاَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ أُخْرَى، فَقَالَ: هَلْ عَلَيْهِ مِنْ دَيْنٍ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، قَالَ: أَبُو قَتَادَةَ عَلَيَّ دَيْنُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَصَلَّى عَلَيْهِ.

کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے عرض کی نہیں تو اُس کی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر دوسرا جنازہ لایا گیا تو فرمایا: کیا اس پر قرض ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے: ہاں۔ فرمایا: تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو۔ حضرت ابو قتادہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اس کا قرض مجھ پر۔ پھر (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے) اُس کی نماز جنازہ پڑھی۔

بخاری، الصحیح، كتاب الكفالة، باب من تكفل عن ميت دينا فليس له أن يرجع، 2: 803، رقم: 2173، بيروت: دار ابن كثير اليمامة

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْتَى بِالرَّجُلِ المُتَوَفَّى، عَلَيْهِ الدَّيْنُ، فَيَسْأَلُ: هَلْ تَرَكَ لِدَيْنِهِ فَضْلًا؟، فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّهُ تَرَكَ لِدَيْنِهِ وَفَاءً صَلَّى، وَإِلَّا قَالَ لِلْمُسْلِمِينَ: صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الفُتُوحَ، قَالَ: أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، فَمَنْ تُوُفِّيَ مِنَ المُؤْمِنِينَ فَتَرَكَ دَيْنًا، فَعَلَيَّ قَضَاؤُهُ، وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جب کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ پوچھتے کیا اس کے پاس قرض ادا کرنے کے لیے کچھ ہے؟ لوگ ہاں کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھا دیتے ورنہ مسلمانوں سے فرماتے کہ اپنے بھائی کی نماز جنازہ پڑھو۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو کثرت سے مال دیا تو فرمایا کہ میں مسلمانوں کا اُن کی جانوں سے بھی زیادہ مالک ہوں۔ پھر جو مسلمانوں میں سے فوت ہو جائے اور قرض چھوڑے تو یہ مجھ پر ہے اور جو مال چھوڑے تو وہ اُس کے وارثوں کے لیے ہے۔

  1. بخاری، الصحیح، كتاب الكفالة، باب الدين، 2: 805، رقم: 2176
  2. مسلم، الصحيح، كتاب الفرائض، باب من ترك مالا فلورثته، 3: 1237، رقم: 1619، بيروت: دار إحياء التراث العربي

اس موضوع پر اور بھی متعدد روایات موجود ہیں۔ اس لیے لوگوں کا ناحق مال کھانا اور قرض واپس نہ کرنا شرعاً ممنوع ہے۔ سوال میں مذکور شخص قرض کی ادائیگی پر قادر ہونے کے باوجود قرض واپس نہ کر کے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ دینے والے بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

تَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ.

نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہے۔

الْمَآئِدَة، 5: 2

گویا برے کاموں میں تعاون کرنے والے بھی شدید عذاب کے مستحق ہیں۔

جہاں تک اس شخص کے ساتھ تعلقات رکھنے اور اس کے ساتھ کھانے پینے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بہتر یہ ہے کہ اسے سمجھایا جائے اور اس قبیح فعل کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے، شائد سمجھانے سے اس کا ضمیر جاگ جائے۔ نفرت گناہ سے ہونی چاہیے گنہگار سے نہیں، اصلاح کی کوشش جاری رہنی چاہیے۔ اگر محض کسی کے گناہ کی بنیاد پر اس سے قطع تعلقی کر لی جائے تو گہنگاروں کی اصلاح کیسے ہوگی؟ وہ تو مزید گناہوں میں لت پت ہو جائیں گے۔ اس لیے اعزا و اقربا اصلاح کی نیت سے اُس کے ساتھ تعلق قائم رکھیں اور باقاعدگی سے اُسے اِس برائی سے نکالنے کی کوشش کریں۔ سماجی معاملات میں بھی اس کے ساتھ میل جول جاری رکھیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری