جواب:
اسلام دینِ فطرت ہے، اس کے اوامر و نواہی میں انسانی فطرت اور نفسیات کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ اسلام کے احکام اعتدال پر مبنی ہیں، اعمال کی حدود و قیود متعین ہیں اور اعتقادات افراط و تفریط سے خالی ہیں۔ دنیاوی زندگی کے تمام امور میں‘ خواہ وہ عبادات ہوں یا معاملات، معاش ہو یا اخلاق‘ سب میں اللہ کو اعتدال اور میانہ روی پسند ہے۔
مساجد میں لاؤڈ سپیکر کے استعمال میں بھی اسی میانہ روی اور اعتدال کے اصول کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ مساجد میں لاؤڈ سپیکر کا استعمال اسی قدر ہونا چاہیے کہ نماز پنجگانہ کی اذان کی آواز اہلِ علاقہ تک پہنچ سکے، اس کے علاوہ کبھی کبھار سپیکر کا استعمال بقدرِ ضرورت ہو جس سے اہلِ محلہ کو تکلیف نہ پہنچے۔ شریعت نے تو فرض عبادات کی ادائیگی میں بھی دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے منع کیا ہے۔ حضرت قيس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوا:
وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَأَتَأَخَّرُ عَنْ صَلاَةِ الغَدَاةِ مِنْ أَجْلِ فُلاَنٍ مِمَّا يُطِيلُ بِنَا، فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ يَوْمَئِذٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيَتَجَوَّزْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ وَالكَبِيرَ وَذَا الحَاجَةِ.
یا رسول اللہ! خدا کی قسم، میں صبح کی نماز سے فلاں کی وجہ سے رہ جاتا ہوں جو ہمیں لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نصیحت کرنے میں اس روز سے زیادہ ناراض نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کچھ لوگ نفرت دلانے والے ہیں۔ لہٰذا جو تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو اُسے ہلکی پڑھانی چاہیے کیونکہ ان میں کمزور، بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ، فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ مِنْهُمُ الضَّعِيفَ وَالسَّقِيمَ وَالكَبِيرَ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ.
جب تم میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے کیونکہ ان میں کمزور، بیمار اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی تنہا نماز پڑھے تو اسے جتنا چاہے طول دے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہوئے اکتاہٹ محسوس کرنے پر تلاوت کلام پاک چھوڑ دینے کا فرمایا جیسا کہ حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اقْرَءُوا الْقُرْآنَ مَا ائْتَلَفَتْ عَلَيْهِ قُلُوبُكُمْ فَإِذَا اخْتَلَفْتُمْ فَقُومُوا عَنْهُ.
قرآن کریم اس وقت تک پڑھتے رہو جب تک تمہارے دل اس کے ساتھ لگے رہیں اور جب تم اکتاہٹ (تھکاوٹ) محسوس کرو تو اُسے پڑھنا چھوڑ دو۔
اسی طرح روزانہ وعظ سے لوگوں کے اکتا جانے کے ڈر سے ہفتہ میں ایک دن مقرر کرنے کے حوالے سے حضرت ابووائل سے روایت ہے:
كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذَكَّرْتَنَا كُلَّ يَوْمٍ؟ قَالَ: أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ، وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ، كَمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا، مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا.
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کو لوگوں میں وعظ فرمایا کرتے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا اے ابو عبدالرحمن! میں چاہتا ہوں کہ آپ روزانہ ہمیں وعظ سے مستفید فرمایا کریں۔ فرمایا کہ ایسا کرنے سے مجھے یہ بات روکتی ہے کہ میں تمہارے اکتا جانے کو نا پسند کرتا ہوں۔ میں نے تم سے وعظ کہنے کے لیے دن مقرر کیا ہوا ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے اکتا جانے کے ڈر سے، ہمارے لیے مقرر فرمایا ہوا تھا۔
بخاري، الصحيح، كتاب العلم، باب من جعل لأهل العلم أياما معلومة، 1: 39، رقم: 70
مذکورہ احادیث کے علاوہ بھی بہت سی احادیث پیش کی جاسکتی ہیں جن میں لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کا درس دیا گیا ہے۔ فرض نماز لمبی پڑھانے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضی کو ہی بنیاد بنایا جائے تو روزانہ لاؤڈ سپیکر کھول کر محفلِ ذکر کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ مسجد میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اہلِ محلہ کے آرام و سکون، بچوں بوڑھوں اور بیماروں کا خیال رکھنا ہمارا اخلاقی و دینی فریضہ ہے۔ اس لیے سپیکر پر ذکر کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔