جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالتریب درج ذیل ہیں:
1۔ کسی بھی نماز کے بعد لوگوں کو درس و نصیحت، تعلیم و تدریس یا وعظ و تبلیغ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت سمرہ بن جُندب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
كَانَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم إِذَا صَلَّى صَلاَةً أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز پڑھ لیتے تو رخ انور کو ہماری طرف فرما لیا کرتے تھے۔
بخاري، الصحيح، كتاب صفة الصلاة، باب يستقبل الإمام الناس إذا سلم، 1: 290، رقم: 809، بيروت، لبنان: دار ابن كثير اليمامة
اور حضرت عریاض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نماز صبح پڑھائی اور اس کے بعد ہماری طرف متوجہ ہو کر ایک موثر و عمدہ نصیحت فرمائی۔
ابن ماجه، السنن، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين، 1: 17، رقم: 44، بيروت: دار الفكر
لیکن اس درس و تدریس کے لیے درج ذیل آداب کو ملحوظ رکھا جانا چاہیے:
بہرحال نماز کے بعد درسِ قرآن یا درسِ حدیث دینے میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ کچھ لوگ نفلی عبادات میں مصروف ہوں۔
2۔ جس طرح جواب کے پہلے حصے میں وضاحت کر دی گئی ہے کہ ہر شخص کو عبادت، ذکر اذکار اور درس و تدریس کے دوران اپنی آواز مناسب حد تک رکھنی چاہیے تاکہ وہ دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث نہ بنے۔ یہی اصول نفلی عبادات کے سلسلے میں بھی ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت یا درس اس قدر بلند آواز سے نہیں کرنا چاہیے کہ دوسروں کی عبادت میں خلل آئے۔ اگر کوئی شخص دھیمی آواز سے بھی پریشانی کا شکار ہوتا ہے تو اسے نفلی عبادت مسجد کی بجائے گھر پر کرنی چاہیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔