زیورات پر زکوٰۃ بیوی ادا کرے گی یا شوہر؟


سوال نمبر:5399
میں نجی ادارے میں ملازمت کرتا ہوں، اپنی ضرورت کے لیے بعض دوستوں اور عزیزوں سے کئی برس پہلے کچھ رقم قرض لی تھی، جس کے ادائیگی رفتہ رفتہ کر رہا ہوں، اب بھی یہ واجب الادا رقم پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے، تاہم اپنی تنخواہ میں گھر کا نظام بخوبی چلا رہا ہوں، قرض کی ادائیگی کمیٹیوں کی صورت میں کر رہا ہوں، میری اہلیہ کے پاس ان کے والدین کے جانب سے دیا گیا زیور ہے جو چودہ پندرہ تولے کے لگ بھگ ہے ان میں سے کچھ اٹھارہ قیراط کا ہے اور کچھ اکیس قیراط کا اور کچھ وائٹ گولڈ ہے، گزشتہ تین برس تک یہ زیور بنک میں گروی رکھوایا گیا تھا جس پر سود دے رہے تھے، لیکن سود کی ممانعت کا معلوم ہوا تو اہلیہ کی والدہ سے قرض لے کر بنک سے زیور کو ڈیڑھ سال پہلے چھڑوا لیا اور ان کو ماہانہ طے شدہ رقم ادا کر کے قرض اتار رہا ہوں، ابھی نصف کے قریب رقم واجب الادا ہے، میرا سوال یہ ہے کہ اب ڈیڑھ سال سے زیور میری اہلیہ کے تصرف میں ہے، تو اس پر زکوٰۃ مجھے دینا ہو گی یا اہلیہ کو؟ اور اگر اہلیہ کی جانب سے میں ادا کر دوں تو کیا ادا ہو جائے گی؟ دوسرا یہ کہ ابھی زیور کو بنک سے چھڑوانے کے لیے لیا گیا قرض پوری طرح اترا نہیں ہے حالانکہ زیور میری اہلیہ کے ہی تصرف میں ہے، تو کیا ایسی صورت میں بھی زیور پر زکوٰۃ واجب ہو گی؟ تیسرا یہ کہ زیور کی کوالٹی اور قیمتیں مختلف ہیں، جنہیں الگ الگ کیا جائے تو کوئی بھی قسم تنہا نصابِ زکوٰۃ تک نہیں پہنچتی جبلہ مجموعی وزن نصاب سے زیادہ ہے، ایسی صورت میں زکوٰۃ کا حساب کس قیمت کے تحت کیا جائے گا؟ چوتھا یہ کہ جس عرصے میں زیور بنک میں گروی رکھا رہا اس عرصے کے زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں؟

  • سائل: مدثر حسینمقام: لاہور پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 24 جون 2019ء

زمرہ: زکوۃ

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کو اپنے زیورات کی زکوٰۃ ادا کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے کہ:

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهَا ابْنَةٌ لَهَا، وَفِي يَدِ ابْنَتِهَا مَسَكَتَانِ غَلِيظَتَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ لَهَا: أَتُعْطِينَ زَكَاةَ هَذَا؟، قَالَتْ: لَا، قَالَ: أَيَسُرُّكِ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللَّهُ بِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟، قَالَ: فَخَلَعَتْهُمَا، فَأَلْقَتْهُمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَتْ: هُمَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِرَسُولِهِ

حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ نے اپنے والد ماجد سے اور انہوں نے ان کے جد امجد سے روایت کی ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی، جس نے سونے کے دو بہت بھاری کنگن پہنے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ان کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ عرض گزار ہوئیں کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ تمہیں اچھا لگتا ہے کہ قیامت کے روز ان کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے کنگن پہنائے تو اس نے انہیں اتار کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش کردیا اور عرض گزار ہوئی کہ یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔

  1. أبوداود، السنن، كتاب الزكاة، باب الكنز ما هو وزكاة الحلي، 2: 95، رقم: 1563، بيروت: دار الفكر
  2. نسائي، سنن الكبري، كتاب الزكاة، زكاة الحلي، 2: 19، بيروت: دار الكتب العلمية

اور حضرت محمد بن عمرو بن عطاء نے عبداللہ بن شداد بن الہاد سے روایت کی کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میرے ہاتھ میں چاندی کی انگوٹھیاں دیکھ کر فرمایا:

أَتُؤَدِّينَ زَكَاتَهُنَّ؟ قُلْتُ: لَا، أَوْ مَا شَاءَاللَّهُ، قَالَ: هُوَ حَسْبُكِ مِنَ النَّارِ.

اے عائشہ! یہ کیا ہے؟ عرض گزار ہوئی کہ یا رسول اللہ! آپ کے لیے سنگار کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ان کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ میں عرض گزار ہوئی کہ نہیں یا جو اللہ نے چاہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہیں جہنم کے لیے کافی ہیں۔

أبوداود، السنن، كتاب الزكاة، باب الكنز ما هو وزكاة الحلي، 2: 95، رقم: 1565

مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر زیورات نصاب کو پہنچ رہے ہوں تو ان پر زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔ اس لیے آپ اپنی اہلیہ کی طرف زکوٰۃ ادا کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں لیکن یہ اصل فریضہ آپ کی اہلیہ کا ہے اور وہ بروزِ قیامت اس کے بارے میں خدا کے حضور جواب دہ ہے۔

2۔ زیورات آپ کی اہلیہ کی ملکیت میں ہیں، آپ کے مقروض ہونے کی صورت میں بھی اس پر سے زکوٰۃ کی فرضیت ساقط نہیں ہوگی۔ اگر وہ ان زیورات کی ملکیت آپ کو منتقل کر دیتی ہے آپ کے مقروض ہونے کے سبب آپ پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔

3۔ اگر سونے کی مقدار ساڑھے سات تولے یا اس سے زیادہ ہے تو زکوٰۃ واجب ہے‘ خواہ کسی بھی کوالٹی کا ہو۔

4۔ اس عرصہ میں بھی زیورات کی قیمت کو دیگر نصاب کے ساتھ ملاکر جو رقم بطورِ قرض بینک سے وصول کی تھی اس کو نصاب سے منہا کر کے باقی مال اگر نصاب کو پہنچتا ہے تو زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔ اس لیے آپ حساب و کتاب سے معلوم کر لیں‘ اس عرصہ میں جو زکوٰۃ بنتی ہے اسے ادا کریں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری