جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيِّئَاتِكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌo
اگر تم خیرات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی اچھا ہے (اس سے دوسروں کو ترغیب ہوگی)، اور اگر تم انہیں مخفی رکھو اور وہ محتاجوں کو پہنچا دو تو یہ تمہارے لیے (اور) بہتر ہے، اور اﷲ (اس خیرات کی وجہ سے) تمہارے کچھ گناہوں کو تم سے دور فرما دے گا، اور اﷲ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
البقرة، 2: 271
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ترغیب کی خاطر ظاہر کر کے خیرات کرنے کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے اور حقدار محتاجوں کو مخفی طریقے سے پہنچا دینے کو بھی اس سے اچھا عمل گردانا ہے۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موقع کی مناسبت کے مطابق فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ ظاہراً مال خرچ کرنا ہے یا مخفی طریقہ اپنانا ہے کیونکہ بعض لوگ مفلس ونادار ہونے کے باوجود سوال کرنے سے کتراتے ہیں جبکہ وہی لوگ اصل حقدار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌo
(خیرات) ان فقراءکا حق ہے جو اﷲ کی راہ میں (کسبِ معاش سے) روک دیے گئے ہیں وہ (امورِ دین میں ہمہ وقت مشغول رہنے کے باعث) زمین میں چل پھر بھی نہیں سکتے ان کے (زُھداً) طمع سے باز رہنے کے باعث نادان (جو ان کے حال سے بے خبر ہے) انہیں مالدار سمجھے ہوئے ہے، تم انہیں ان کی صورت سے پہچان لو گے، وہ لوگوں سے بالکل سوال ہی نہیں کرتے کہ کہیں (مخلوق کے سامنے) گڑگڑانا نہ پڑے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو تو بے شک اﷲ اسے خوب جانتا ہے۔
البقرة، 2: 273
لہٰذا جب معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص زکوٰۃ لینے کا حقدار ہے تو پھر مستحق کی سفید پوشی کے پیش نظر اُسے بتائے بغیر زکوٰۃ دینا بھی جائز ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔