جواب:
آئمہ حضرات کو نماز کی جماعت میں طویل قرات سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ جماعت میں بچے، جوان، بوڑھے، بیمار اور مسافر بھی شامل ہوتے ہیں۔ اسلام میں میانہ روی کو پسند کیا گیا ہے۔ حضرت قيس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوا:
وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَأَتَأَخَّرُ عَنْ صَلاَةِ الغَدَاةِ مِنْ أَجْلِ فُلاَنٍ مِمَّا يُطِيلُ بِنَا، فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ يَوْمَئِذٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيَتَجَوَّزْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ وَالكَبِيرَ وَذَا الحَاجَةِ.
یا رسول اللہ! خدا کی قسم، میں صبح کی نماز سے فلاں کی وجہ سے رہ جاتا ہوں جو ہمیں لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نصیحت کرنے میں اس روز سے زیادہ ناراض نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کچھ لوگ نفرت دلانے والے ہیں۔ لہٰذا جو تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو اُسے ہلکی پڑھانی چاہیے کیونکہ ان میں کمزور، بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ، فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ مِنْهُمُ الضَّعِيفَ وَالسَّقِيمَ وَالكَبِيرَ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ.
جب تم میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے کیونکہ ان میں کمزور، بیمار اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی تنہا نماز پڑھے تو اسے جتنا چاہے طول دے۔
اس لیے امام صاحب کو باجماعت نماز میں قرات اور رکوع و سجود میں اختصار کرنا چاہیے تاکہ ہر عمر کے لوگ باجماعت نماز ادا کر سکیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔