جواب:
کسی بھی بیماری کی وجہ سے مجبوراً آپریشن کرنے یا کسی عضو کو کاٹ کر جسم سے الگ کرنے کا مقصد انسان کی جان بچانا ہو تو جائز ہے کیونکہ علاج و معالجہ انسان کی بہتری کے لیے ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود علاج کی خاطر پچھنے لگوائے۔ ایک روایت میں حضرت حمید الطویل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حجام کی مزدوری کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَجَمَهُ أَبُو طَيْبَةَ، وَأَعْطَاهُ صَاعَيْنِ مِنْ طَعَامٍ، وَكَلَّمَ مَوَالِيَهُ فَخَفَّفُوا عَنْهُ، وَقَالَ: إِنَّ أَمْثَلَ مَا تَدَاوَيْتُمْ بِهِ الحِجَامَةُ، وَالقُسْطُ البَحْرِيُّ، وَقَالَ: لاَ تُعَذِّبُوا صِبْيَانَكُمْ بِالْغَمْزِ مِنَ العُذْرَةِ، وَعَلَيْكُمْ بِالقُسْطِ.
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پچھنے لگوائے اور ابو طیبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پچھنے لگائے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دو صاع اناج مرحمت فرمایا اور اس کے مالکوں سے گفتگو کی تو انہوں نے اس کے کام میں تخفیف کردی۔ نیز فرمایا کہ جن چیزوں کے ساتھ تم علاج کرتے ہو ان میں بہترین پچھنے لگوانا اور قسط بحری کا استعمال ہے اور اپنے بچوں کو گلے دبا کر تکلیف نہ دیا کرو اور قسط کو ضرور استعمال کیا کرو۔
اس لیے مستند ڈاکٹر اگر مریض کے ورثاء کی اجازت سے بہتر علاج و معالجہ اور مریض کی جان بچانے کی خاطر اور مرض کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے کسی مریض کی انگلیاں، ہاتھ، پاؤں یا کوئی بھی عضو کاٹ دیں تو اس پر شرعاً کوئی حرج نہیں۔ یہ خیانت نہیں، بلکہ انسان کی جان بچانے کی کوشش ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔