جواب:
اللہ رب العزت نے خیر و شر اور نیکی و بدی کا امتیاز انسان کی فطرت میں رکھا ہے، اس لیے تمام انسانوں میں اخلاقیات کا مشترک رویہ پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جھوٹ، قتل، خیانت، بدکاری، چوری اور فتنہ و فساد کو ہر سلیم الفطرت انسان بلاتفریقِ مذہب برائی خیال کرتا ہے۔ یہاں تک کہ کاذب، قاتل، خائن اور فتنہ پرور سے بھی جب ان برائی کی نسبت دریافت کیا جائے تو وہ بھی ان افعال کی مذمت کرتا ہے کیونکہ اگر وہ ان برائیوں کو جائز و درست عمل سمجھے تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ اپنے ساتھ دھوکہ دہی کو، اپنے ساتھ خیانت کو اور اپنے قتل کو جائز قرار دے رہا ہے جبکہ کوئی سلیم الفطرت انسان ایسا نہیں کر سکتا۔ اسی طرح سچائی، عدل، امانتداری، احسان اور حسنِ اخلاق جیسی اچھائیاں تمام انسانی معاشروں میں یکساں اہمیت کی حامل ہیں۔ انسان فطرتاً ان اعمال کی مدح کرتا ہے اور ان کے برخلاف کی مذمت کرتا ہے۔ یہ مدح و ذم کا جذبہ انسان کی فطرت کا لازم جزو ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سِمْعَانَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ، فَقَالَ: الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ، وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ، وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ.
حضرت نواس بن سمعان انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے متعلق سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اچھا خلق نیکی ہے اور گناہ وہ چیز ہے جو تمہارے دل میں کھٹکتی رہے اور تم یہ ناپسند کرو کہ لوگ اس پر مطلع ہوں۔
اس حدیثِ مبارکہ میں دل (ضمیر) کی آواز پر عمل کرنا ہے، یعنی جن امور کو سرانجام دیتے ہوئے انسان اپنے دل میں کھٹکا محسوس کرے اور ان امور کی انجام دہی کو باعث شرمندگی و ندامت سمجھے وہ شرعاً اور اخلاقاً جائز نہیں ہوسکتے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ برا عمل انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے۔ اگر انسان برائی سے بچنا چاہے تو اسی ضمیر کی آواز کو فتویٰ سمجھ کر برے عمل سمجھ سکتا ہے۔ یہی ضمیر کی آواز دل کا فتویٰ ہے اور ہر صاحبِ ضمیر اسے محسوس کر سکتا ہے، البتہ کچھ انسان مفادات، لالچ اور حسد و نفرت کے جذبات میں ضمیر کی ان نداؤوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ دل سے فتویٰ لینے کا معنیٰ ہرگز تحقیقی موضوعات سے متعلق فتویٰ نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔