جواب:
منگنی دراصل نکاح کا وعدہ ہے جو ایک طرح سے قبل از نکاح لڑکے لڑکی اور ان کے خاندان کو اچھی طرح سمجھنے کی مہلت کا وقت ہے‘ تاکہ پیش آمدہ معاملات میں فریقین ایک دوسرے کو جانچ لیں اور نکاح کے بعد انہیں مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
آپ نے لڑکا پسند نہ ہونے کی بناء پر منگنی توڑ کر کوئی زیادتی نہیں کی بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ اپنا حقِ اختیار استعمال کیا ہے۔ نکاح کے بعد علیحدگی جہاں ایک طرف بذاتِ خود پیچیدہ امر ہوتی‘ وہیں دونوں خاندانوں کے لیے اذیت کا باعث بھی بن سکتی تھی‘ سو اس سے پہلے انکار کر کے آپ نے فریقین کو اس اذیت اور پیچیدگی سے بچایا ہے۔ فریقِ ثانی کا معاف نہ کرنے کی بات کرنا بےجا ضد ہے کیونکہ زبردستی بننے والے رشتے پائیدار نہیں ہوتے۔ اگر لڑکے اور لڑکی میں وہ محبت و مودت اور ہم آہنگی نہ ہو جو رشتہ ازدواج کی ضرورت ہے تو یہ بندھن بجائے فرحت و مسرت دینے کے الٹا اذیت کا باعث بن جاتا ہے۔ قرآنِ مجید نے نکاح کا مقصد باہمی تسکین بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ.
اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بیشک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔
الرُّوْم، 30: 21
اگر یہ رشتہ سکون کی بجائے الجھن کا باعث بن جائے تو کیا نکاح کا مقصد حاصل ہو سکے گا؟ ہرگز نہیں۔ اس لیے جذباتی ہونے کی بجائے خوب سوچ سمجھ کر نکاح کا فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ دونوں خاندانوں اور خود لڑکے لڑکی کو قلبی سکون اور جسمانی راحت میسر آئے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ منگنی یا نکاح کا وعدہ توڑنا اگرچہ سماجی اقدار کے منافی ہے تاہم کسی کو زبردستی نکاح کے بندھن میں باندھ کر کبائر کی طرف مبتلا کرنے یا بےمقصد ازدواجی زندگی گزارنے سے بہرحال بہتر ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔