مقروض اپنی رضامندی سے اضافے کی پیشکش کرے تو کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:5260
السلام علیکم سر! ایک شخص دس لاکھ ادھار مانگ رہا اور ماہ مہینے کی مہلت دینے پر ایک لاکھ اضافی دینے کے لیے رضامند ہے۔ مجھے معلوم کرنا ہے کہ یہ اضافی رقم سود تو نہیں۔ وہ اپنی خوشی سے دے رہا ہے تو کیا یہ جائز ہے؟

  • سائل: محمد ارسلانمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 31 جنوری 2019ء

زمرہ: سود

جواب:

وزن کی جانے والی یا پیمانے سے ناپے جانے والی اجناس اور ثمن (روپیہ، پیسہ/ کرنسی) میں دو آدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو زائد دینا پڑتا ہو‘ سود کہلاتا ہے۔ جیسے زید نے بکر کو ایک ماہ کے لیے دو کلو گندم یا چار میٹر کپڑا یا 100 روپے بطور قرض دیئے اور طے کرلیا کہ وہ مقررہ وقت پر تین کلو گندم یا پانچ میٹر کپڑا یا 110 روپے واپس کرے گا‘ تو معاملہ یہ سود ہے اور اسے اسلام میں حرام اور گناہِ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ البتہ اگر بکر قرض کی ادائیگی کے وقت اپنی خوشی سے اصل قرض سے کچھ زائد دینا چاہے تو یہ جائز ہے اور ایسا کرنا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے بھی ثابت ہے۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ فریقین کے درمیان اس زائد کے معاملے میں پہلے کوئی بات طے نہ کی گئی ہو۔

آپ کے سوال میں مذکور لین دین کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ مقروض اگرچہ اپنی مرضی سے زائد رقم دینے کی پیشکش کر رہا ہے مگر کیونکہ یہ زیادتی پہلے سے طے کی جارہی ہے اس لیے جائز نہیں ہے۔ اگر اس سلسلے میں پہلے کچھ طے نہ کیا جائے اور مقروض اصل رقم کی ادائیگی کرتے ہوئے اپنی مرضی سے تھوڑا یا زیادہ اضافہ کر لے تو ایسا اضافہ لینے میں کوئی حرج نہیں‘ تاہم پہلے سے طے کی گئی زیادتی حرام ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔