جواب:
شریعتِ اسلامی میں شارع نے طہارت و صفائی پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور حلال و پاکیزہ کھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَاأَيُّهَا النَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِي الأَرْضِ حَلاَلاً طَيِّباً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ.
اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
البقره، 2: 168
اسی سورت میں آگے چل کر فرمایا گیا ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُواْ لِلّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ.
اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو۔
البقره، 2: 172
سورہ مائدہ میں فرمایا گیا ہے:
وَكُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّهُ حَلاَلاً طَيِّبًا وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِيَ أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ.
اور جو حلال پاکیزہ رزق اللہ نے تمہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے کھایا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔
الْمَآئِدَة، 5: 88
اور سورہ النحل میں ارشاد ہے:
فَكُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّهُ حَلاَلاً طَيِّبًا وَاشْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ.
پس جو حلال اور پاکیزہ رزق تمہیں اللہ نے بخشا ہے، تم اس میں سے کھایا کرو اور اللہ کی نعمت کا شکر بجا لاتے رہو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔
النَّحْل، 16: 114
مذکورہ آیات کے علاوہ بھی متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کی چیزوں میں حلال ہونے کے ساتھ طیب و پاکیزہ ہونے کی بھی شرط عائد کی ہے۔ اس لیے اشیائے خورد و نوش کا صرف حلال ہونا کافی نہیں بلکہ پاکیزہ اور صاف ستھرا ہونا بھی لازم ہے۔ ماہرین دندان کے مطابق کھانا کھانے کے پندرہ بیس منٹ بعد دانتوں میں پھنسے کھانے کے اجزاء سے بیکٹیریا پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصاندہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کھانے کے بعد کلی کرنے اور دانتوں کی صفائی کو مسنون قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ أَكَلَ فَلْيَتَخَلَّلْ فَمَا تَخَلَّلَ فَلْيَلْفِظْ وَمَا لَاكَ بِلِسَانِهِ فَلْيَبْتَلِعْ.
جو شخص کھانا کھائے اُسے خلال کرنا چاہئے، اور خلال کے ذریعے جو چیز نکلے اسے پھینک دے اور جو زبان کے ذریعے نکلے اُسے نگل لینا چاہیے۔
دارمی، السنن، كتاب الأطعمة، باب في التخليل، 2: 149، رقم: 2087، دار الكتاب العربي
اس لیے کھانا کھانے کے بعد اچھی طرح کلی کرنی چاہیے جس سے دانتوں کے درمیان پھنسا ہوا کھانا نکل جائے، اسی کو خلال کہتے ہیں۔ اس حدیث مبارکہ میں دو باتیں اور بھی قابل توجہ ہیں کہ خلال کے ذریعے نکلنے والی چیز کو پھینکنے اور زبان کے ذریعے نکلنے والی چیز کو نگلنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کھانے کے آخری لقمہ کے بعد زبان سے منہ میں لگے کھانے کو نگل لیا جائے اور پھر دانتوں کے درمیان پھنسے ذرّات کو کلی کر کے باہر پھینک دیا جائے تاکہ بیکٹریا پیدا ہونے سے پہلے منہ کی صفائی ہو جائے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منہ کی صفائی کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی قرار دیا ہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ، مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ.
مسواک منہ کی صفائی کا سبب ہے، رب کریم کی خوشنودی کا باعث ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کھانا کھانے کے کچھ دیر بعد دانتوں میں پھنسا ہوا کھانا طبّی نقطہ نظر سے مضرِ صحت اور طبعی طور ناپسندیدہ ہے‘ اس لیے اسے نگلنے کی ممانعت کی گئی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔