جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ادْعُواْ رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ.
تم اپنے رب سے گڑگڑا کر اور آہستہ (دونوں طریقوں سے) دعا کیا کرو، بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
الْأَعْرَاف، 7: 55
مفسرین کرام نے اس آیتِ مبارکہ کو آدابِ دعا کے ضمن میں لکھا ہے اور اس میں مذکور حد سے بڑھنے کو کسی کے بارے میں ناحق دعا بتایا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی کے لیے ناحق مرنے، نقصان یا مصیبت کی دعا کرنا اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ تاہم جس طرح خیر کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اسی طرح بد دعائیں یعنی کسی آدمی کے خسارے، مصیبت یا پریشانی کے لیے کی گئی دعاؤں کی قبولیت کا بھی احتمال ہوتا ہے۔ اسی لیے کسی کو بد دعا دینے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ہوسکتا ہے وہ وقت دعا کی قبولیت کا ہو اور وہ بد دعا قبول کر لی جائے۔
اسلامی آدابِ معاشرت میں کسی مسلمان کے لیے ناحق بد دعا کرنا جائز نہیں، بلکہ کسی پر دنیا یا آخرت میں مصیبت پڑنے کی تمنا کرنا بھی ناجائز ہے‘ سوائے اس صورت کے کہ ظالم یا جابر کے لیے بد دعا کی جائے۔ ارشادِ ربانی ہے:
لاَّ يُحِبُّ اللّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللّهُ سَمِيعًا عَلِيمًاO
اﷲ کسی (کی) بری بات کا بآوازِ بلند (ظاہراً و علانیۃً) کہنا پسند نہیں فرماتا سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہو (اسے ظالم کا ظلم آشکار کرنے کی اجازت ہے)، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔
النساء، 4: 148
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ ظالم و جابر کے حق میں مظلوم و مقہور کو بد دعا کرنے کی اجازت دی گئی ہے ورنہ کسی کو ناحق بد دعا دینا ممنوع ہے۔
موت کے بعد کفار اور گنہگار لوگوں کی روحیں ’سجین‘ میں قید ہوتی ہیں اور انہیں کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں ہوتی، البتہ آثارِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور آئمہ و علماء کے اقوال میں فرمایا گیا ہے کہ مومنین اور صالحین کی ارواح کے موت کے بعد آزاد ہوتی ہیں اور باذنِ الٰہی جہاں چاہیں جاسکتی ہیں لیکن قرآنِ مجید و ذخیرہ حدیث میں اس سے متعلق کوئی آیت و روایت نہیں ملتی ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر ’اِتْیَانُ الْاَرْوَاح لِدِیَارِهَمْ بَعْدَ الرَّوَاح‘ (روحوں کا بعد وفات اپنے گھر آنا) کے عنوان سے ایک رسالہ تحریر کیا ہے جس میں درج آثار و اقوال میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت سلمان فارسی اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما باہم ملے، ایک نے دوسرے سے کہا اگر تم مجھ سے پہلے انتقال کرو تو مجھے خبر دینا کہ وہاں کیا پیش آیا، پوچھا گیا: کیا زندہ اور مردہ بھی ملتے ہیں؟ فرمایا:
نعم أما المؤمنون فان أرواحهم فی الجنة. وهی تذهب حيث شاءت.
ہاں مسلمانوں کی روحیں تو جنت میں ہوتی ہیں، انہیں اختیار ہوتا ہے جہاں چاہیں جائیں۔
بيهقی، شعب الايمان، 2 : 121، رقم : 1355، دار الکتب العلمية بيروت.
ابن عساکر، تاريخ مدينة دمشق، 21 : 460، دالکفر بيروت.
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ:
الدنيا سجن المؤمن وجنة الکافر. فاذا مات المؤمن يخلی به يسرح حيث شاء.
دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت۔ جب مسلمان مرتا ہے، اس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے۔
ابن ابی شيبة، المصنف، 7 : 129، رقم : 34722 مکتبة الرشد رياض.
شیخ الاسلام ’کشف الغطاء عمالزم للموتی علی الاحیاء‘ فصل ہشتم میں فرماتے ہیں:
درغرائب وخزانہ نقل کردہ کہ ارواح مومنین می آیند خانہ ہائے خودراہر شب جمعہ روز عید وروز عاشورہ وشب برات، پس ایستادہ می شوند بیرون خانہائے خود وندامی کند ہریکے بآواز بلند اندوہ گین اے اہل و اولاد من ونزدیکانِ من مہر بانی کنید برما بصدقہ۔
غرائب اور خزانہ میں منقول ہے کہ مومنین کی روحیں ہر شب جمعہ، روز عید، روز عاشورہ، اور شب برات کو اپنے گھر آکر باہر کھڑی رہتی ہیں اور ہر روح غمناک بلند آواز سے ندا کرتی ہے کہ اے میرے گھر والو، اے میری اولاد، اے میرے قرابت دارو! صدقہ کرکے ہم پر مہربانی کرو۔
کشف الغطاء عمال زم للموتی علی الاحیاء، فصل احکام دعا و صدقه، ص: 66)
مزید فرماتے ہیں:
شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ در شرح الصدور احادیث شتے در اکثر ازیں اوقات آوردہ اگرچہ اکثرے خالی از ضعف نیست۔
شرح الصدور میں شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے ان میں سے اکثر اوقات کے بارے میں مختلف حدیثیں نقل کی ہیں اگر چہ ضعف سے خالی نہیں ہیں۔
کشف الغطاء عمالزم للموتی علی الاحیاء، فصل احکام دعا وصدقه، ص: 66
اما م جلال الدین سیوطی شرح الصدور میں فرماتے ہیں:
رجح ابن البران ارواح الشهداء فی الجنة وارواح غیرهم علی افنیة القبور فتسرح حیث شاءت.
امام ابو عمر ابن عبدالبر نے فرمایا: راجح یہ ہے کہ شہیدوں کی روحیں جنت میں ہیں ا ور مسلمانوں کی فنائے قبور پر، جہاں چاہیں آتی جاتی ہیں۔
شرح الصدور بحواله ابن ابی الدنیا، باب مقر الارواح، خلافت اکادمی، منگوره، سوات، ص: 105
علامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں:
ان الروح اذا انخلعت من هٰذا الهیکل وانفکت من القیود بالموت تحول الی حیث شاءت.
بیشک جب روح اس قالب سے جدا اور موت کے باعث قیدوں سے رہا ہوتی ہے تو جہاں چاہتی ہے جولاں کرتی ہے۔
تیسیر شرح جامع صغیر تحتِ حدیث ان روح المو منین... الخ، مکتبة الامام الشافعی، الریاض، السعودیه، 1/ 329
قاضی ثناء اللہ تذکرۃ الموتی میں لکھتے ہیں:
ارواح ایشاں (یعنی اولیائے کرام قدست اسرارہم) از زمین و آسمان و بہشت ہر جاکہ خواہندمی روند.
اولیائے کرام قدست اسرارہم کی روحیں زمین آسمان، بہشت میں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔
تذکرة الموتٰی و القبور اردو ترجمه مصباح النور، نوری کتب خانه، لاهور، ص: 76
خزانۃ الروایات میں ہے:
عن بعض العلماء المحقیقین ان الارواح تتخلص لیلة الجمعة وتنتش فجاؤ الی مقابر ثم جاؤا فی بیوتهم.
بعض علماء محققین سے مروی ہے کہ روحیں شب جمعہ چھُٹی پاتی اور پھیلتی جاتی ہیں، پہلے اپنی قبروں پر آتی ہیں پھر اپنے گھروں میں۔
خزانة الروایات
دستور القضاۃ مسند صاحبِ مائۃ مسائل میں فتاوٰی امام نسفی سے ہے:
ان ارواح المومنین یاتونی فی کل لیلة الجمعة ویوم الجمعة فیقومون بفناء بیوتهم ثم ینادی کل و احد منهم بصوت حزین یا اهلی ویا اولادی ویا اقربائی اعطفوا علینا بالصدقة واذکرونا ولاتنسونا وارحمونا فی غربتنا.
بیشک مسلمانوں کی روحیں ہر روز و شب جمعہ اپنے گھر آتی اور دروازے کے پاس کھڑی ہو کر دردناک آواز سے پکارتی ہیں کہ اے میرے گھر والو! اے میرے بچّو! اے میرے عزیزو! ہم پر صدقہ سے مہر کرو ، ہمیں یا د کرو بھول نہ جاؤ، ہماری غریبی میں ہم پر ترس کھاؤ۔
دستور القضاة
موت کے بعد روح کا دنیا میں لوٹنا مابعد الطبیعات میں سے ہے اور ایسی غیر مرئ و غیر محسوس چیزوں کو تسلیم کرنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واضح فرمان ہی تسلی بخش ہو سکتا ہے۔ چونکہ اسلسلے میں قرآن و حدیث میں کوئی ضابطہ بیان نہیں فرمایا گیا اس لیے متوفین کی ارواح کے اپنے گھر یا کسی جگہ لوٹنے کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا اور ارواح کے بِاذن الٰہی کہیں آنے جانے کی نفی بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس کے لیے اس مسئلہ میں کوئی ضابطہ متعین کرنا مشکل ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔