جواب:
ریاست کا نظامِ حکومت چلانے کے لیے مالی وسائل بنیادی ضرورت ہیں۔ دنیا میں جب سے ریاستی نظام وجود میں آیا ہے تب سے ریاست کے مالی وسائل کی دستیابی کے لیے حکومتیں مختلف اقدامات اٹھاتی ہیں تاکہ ریاستی عمال‘ جیسے فوج، پولیس، ججوں، اساتذہ، اطباء اور دیگر ہمہ قسم سرکاری اداروں کے اہلکاروں کو تنخواہیں دے سکیں‘ تعلیمی ادارے، ہسپتال، سٹرکیں، پل اور ضروری بنیادی ڈھانچے (INFRASTRUCTURE) کی تعمیر کر سکیں اور مستحقین کی مدد یا عامۃ الناس کو اشیائے خورد و نوش کی فراہمی میں رعائت (SUBSIDY) دے سکیں۔ اولین اسلامی ریاست میں اس مقصد کے لیے بیت المال کا نظام وضع کیا گیا جس میں زکوٰۃ، اموالِ غنیمت کا خمس اور اموالِ فئے وغیرہ سے مالی وسائل حاصل کیے جاتے اور مذکورہ مقاصد پر صَرف کیے جاتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ وسائل ناپید ہوگئے تو اموال کی فراہمی کے لیے محصولات (TAX) کا نظام وجود میں آیا۔ اس لیے حکومتیں ریاست کے مالی وسائل کے لیے عوام پر مختلف قسم کے محصولات عائد کرتی ہیں اور محصولات سے حاصل کردہ رقوم ریاستی نظام چلانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اگر حکومت محصول نہ لے تو ریاست کی نظام اور تمام فلاحی امور کی انجام دہی خطرے میں پڑ جائے گی۔ قرآنِ مجید ذوالقرنین بادشاہ کا قصہ بیان کیا ہے کہ جب ذوالقرنین سفر کرتے ہوئے ایک ایسے علاقے میں پہنچے جہاں کے لوگوں نے ان سے یاجوج و ماجوج کے فساد کی شکائت کی۔ اس فساد کے سدباب کے لیے انہوں نے ایک ایسی دیوار تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی جس سے ان کو یاجوج و ماجوج کی فتنہ انگیزیوں سے تحفظ مل جائے اور اس کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے کا بھی عندیہ دیا۔ چنانچہ قرآنِ مجید فرماتا ہے:
قَالُوا يَا ذَاالْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَ مَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَن تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا. حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِن دُونِهِمَا قَوْمًا لاَّ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلاً.
انہوں نے کہا: اے ذوالقرنین! بیشک یاجوج اور ماجوج نے زمین میں فساد بپا کر رکھا ہے تو کیا ہم آپ کے لئے اس (شرط) پر کچھ مالِ (خراج) مقرر کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک بلند دیوار بنا دیں۔ (ذوالقرنین نے) کہا: مجھے میرے رب نے اس بارے میں جو اختیار دیا ہے (وہ) بہتر ہے، تم اپنے زورِ بازو (یعنی محنت و مشقت) سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں گا۔
الْكَهْف، 18: 94-95
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے یا کسی اور نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زکوٰۃ کے متعلق پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ فِي المَالِ لَحَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الآيَةَ الَّتِي فِي البَقَرَةِ: {لَيْسَ البِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ... الآيَةَ} [البقرة: 177]
مال میں زکوۃ کے علاوہ بھی حق ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۃ بقرہ کی آیت (نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو۔۔۔)
درج بالا آیت و روایت سے حکومت کے لیے محصول عائد کرنے کی گنجائش نکلتی ہے۔
چنگی محصول (TOLL TAX) سڑکوں اور پلوں کی تعمیر و مرمت کے لیے عائد کیا جاتا ہے۔ اگر بوجوہ یہ محصولات ان مقاصد کے لیے خرچ نہیں کیے جا رہے تو نظام میں موجود خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ناکہ ٹیکس چوری شروع کر دی جائے۔ اگر ہر شخص یہی سوچ کر ٹیکس ادا کرنا چھوڑ دے کہ یہ اپنے اصل مقصد پر خرچ نہیں کیے جارہے تو فلاحِ عامہ کا جو تھوڑا بہت کام ہو رہا ہے وہ بھی ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔ اس لیے ذمہ داری کے ساتھ ٹیکس ادا کریں اور اتنی ہی ذمہ داری سے اداروں کا محاسبہ کرتے رہیں تاکہ ان ٹیکسز کو اصل مقصد پر خرچ کیا جائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔