جواب:
اعلیٰ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تحقیق اور مطالعہ کی بنیاد پر اگر کسی شخص کو دائر اسلام سے خارج قرار دیا ہے تو اُس شخص کے بارے میں کوئی دوسرا محقق و عالم بھی تحقیق کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اگر اِس محقق کی تحقیق اُس شخص کے بارے میں یہ ثابت کرے کہ وہ اُن عقائد و اعمال کا مرتکب نہیں تھا جن کی بناء پر اعلیٰ حضرت نے اسے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا تھا یا اس کا عقیدہ کہ جس کی بناء پر اسے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا تھا‘ تاویل قبول کرتا ہے تو کوئی شک نہیں کہ یہ محقق اپنی تحقیق و مطالعہ کی بناء پر اعلیٰ حضرت سے مختلف مؤقف قائم کرسکتا ہے۔ اس میں شرعاً اور عقلاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ تحقیق و مطالعہ اور قوی دلائل و براہین کی بنیاد پر کسی عالم دین کے فتویٰ سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ علم کی دنیا جذبات و عصبیت سے خالی اور دلائل و براہین سے مزین ہے‘ بیشہء تحقیق میں سرگرداں مردانِ حق کو بھی اپنے علمی مؤقف کی بنیاد تعصب اور جذبات پر نہیں بلکہ خالص دلائل پر ہی رکھنی چاہیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔