جواب:
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیثِ مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مرضِ وصال کے دوران دوا پلانے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ صحیحین میں مذکور حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
قَالَتْ عَائِشَةُ: لَدَدْنَاهُ فِي مَرَضِهِ فَجَعَلَ يُشِيرُ إِلَيْنَا: أَنْ لاَ تَلُدُّونِي فَقُلْنَا كَرَاهِيَةُ المَرِيضِ لِلدَّوَاءِ، فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ: أَلَمْ أَنْهَكُمْ أَنْ تَلُدُّونِي؟ قُلْنَا كَرَاهِيَةَ المَرِيضِ لِلدَّوَاءِ، فَقَالَ: لاَ يَبْقَى أَحَدٌ فِي البَيْتِ إِلَّا لُدَّ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَّا العَبَّاسَ فَإِنَّهُ لَمْ يَشْهَدْكُمْ.
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بیماری کے دوران ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوا پلائی حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اشارے سے ہمیں منع فرما رہے ہیں جیسے ہر مریض انکار کیا کرتا ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو افاقہ ہوا تو فرمانے لگے، کیا میں نے تمہیں دوا پلانے سے منع نہیں کیا تھا؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ شاید یہ اسی طرح ہے جیسے ہر مریض انکار کیا کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ گھر میں اس وقت جتنے بھی موجود ہیں سب کو دوا پلاؤ ماسوائے عباس کے کیونکہ یہ اس وقت موجود نہ تھے۔
اور صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث نقل کی گئی ہے، اس روایت کے الفاظ کا بھی بغور مطالعہ کریں:
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَدَدْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ، فَأَشَارَ أَنْ لَا تَلُدُّونِي، فَقُلْنَا: كَرَاهِيَةَ الْمَرِيضِ لِلدَّوَاءِ، فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ: لَا يَبْقَى أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَّا لُدَّ، غَيْرُ الْعَبَّاسِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَشْهَدْكُمْ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض میں ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ میں دوا ڈالی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ کر کے دوا ڈالنے سے منع فرمایا، ہم نے آپس میں کہا شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرض کی وجہ سے دوا کو (طبعاً) ناپسند کر رہے ہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفاء یاب ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عباس کے علاوہ تم سب کے منہ میں دوا ڈالی جائے کیونکہ وہ اس وقت موجود نہیں تھے۔
مسلم، الصحيح، كتاب السلام، باب كراهة التداوي باللدود، 4: 1733، رقم: 2213، بيروت: دار إحياء التراث العربي
درج بالا دونوں روایات اپنے معنیٰ و مفہوم اور مدعا میں واضح ہیں۔ مرضِ وصال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو پلائی گئی جس سے آپ کی مرض میں افاقہ ہوا۔ مریض کو افاقہ دوا سے ہوتا ہے‘ زہر سے نہیں بلکہ زہر تو اپنا مہلک اثر دکھاتا ہے۔ اگر معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زہر دیا گیا تھا تو اس سے شفایابی کیسے ہوگئی؟ تمام کتبِ سیرت و حدیث میں آقا علیہ السلام کے مرضِ وصال کا تذکرہ کیا گیا ہے لیکن کسی مؤرخ یا محدث نے آقا علیہ السلام کو اس حال میں زہر دیئے جانے یا آپ کے اس دنیا سے مسموم رخصت ہونے کا ذکر نہیں کیا۔ جو کوئی ایسا معنیٰ نکالنے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے خبثِ باطن کا اظہار کر کے حدیث میں تاویل کر رہا ہے اور سادہ لوح لوگوں کو ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بدظن کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا و آخرت میں سوائے خسارے کے کوئی بدلہ نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔