جواب:
اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا خالق و مالک ہے اور ہر شئے اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ کوئی ذرہ بھی اذنِ الٰہی کے بغیر اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے اور نہ کوئی پتّہ گرسکتا ہے۔ اس کائنات کا کوئی معمولی سا عمل بھی اللہ تعالیٰ کے علم اور مشیت کے بغیر انجام نہیں پاسکتا۔ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے اور انسان کیا عمل کرے گا‘ سب ازل سے ہی علمِ الٰہی میں ہے۔ اسی کو تقدیر کا نام دیا گیا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو قدرت و اختیار عطا کیا ہے اور اسے خیر و شر کی تمیز سکھا کر خیر کو اختیار کرنے اور شر کو ترک کرنے کا حکم دیا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ.
اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔
الْكَهْف، 18: 29
اسی طرح ایک مقام پر ارشاد ہے:
أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِO وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِO وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِO
کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیں۔ اور (اسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دئیے)۔ اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے۔
الْبَلَد، 90: 8-10
مذکورہ بالا آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کی تمیز سکھائی اور ان میں سے کسی ایک کو اپنانے کا اختیار دیا ہے۔ اب انسان کی مرضی ہے کہ خیر کا راستہ اپنا کر عزت کما لے یا شر کو اپنا کر ذلت و رسوائی کمالے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لاَّ رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ.
سو کیا حال ہو گا جب ہم ان کو اس دن جس (کے بپا ہونے) میں کوئی شک نہیں جمع کریں گے، اور جس جان نے جو کچھ بھی (اعمال میں سے) کمایا ہو گا اسے اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔
آل عِمْرَان، 3: 25
اس آیتِ مبارکہ کا دوسرا حصہ موضوع سے متعلقہ ہے کہ جو انسان کمائے گا اسی کا بدلہ اسے ملے گا۔ یعنی اچھے اعمال کی جزا ملے گی اور برے اعمال کی سزا ملے گی۔ اسی منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اگلی آیت مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو بآسانی بات سمجھ آ جائے گی۔ فرمایا:
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَـنْـزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.
(اے حبیب! یوں) عرض کیجئے: اے اﷲ، سلطنت کے مالک! تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے، بیشک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے۔
آل عِمْرَان، 3: 25
یعنی اچھے اعمال انسان کی عزت اور درجات کی بلندی کا سبب بنتے ہیں اور برے اعمال انسان کی ذلت و پستی کا باعث ہوتے ہیں‘ جبکہ خدا تعالیٰ کی رضا انسان کو عزت دینے میں ہے ذلت و رسوائی میں نہیں۔
آیتِ مبارکہ کے جس حصے میں (و تذل من تشاء) کے بارے میں آپ نے دریافت کیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے اذن و مشیت کا تذکرہ ہے نہ کہ اس کی رضا کا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کسی کو ذلت دینا نہیں ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ ’جسے چاہے ذلت دے‘ اس کا مطلب ہے کہ ذلت ملنا بھی خدا تعالیٰ کی مشیت و ارادے کے تابع ہے۔ اچھائی ہو یا برائی دونوں اثر پزیری کے لیے اللہ تعالیٰ کے ارادے، مشیت اور اذن ہی کی محتاج ہیں‘ خود سے مؤثر نہیں ہیں۔ اس لیے عزت و ذلت‘ دونوں اللہ کی مشیت و ارادے سے مؤثر ہیں‘ از خود نہیں۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ عزت اللہ تعالیٰ کے ارادے و مشیت کے ساتھ ساتھ اس کے حکم اور رضا سے بھی ہے جبکہ ذلت اللہ تعالیٰ مشیت و ارادے سے اثر پذیر تو ہے مگر اس کے کسب میں اللہ کا حکم اور رضا شامل نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔