جواب:
آپ کے سوالات کے جوبات بالترتیب درج ذیل ہیں:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خطبہ جمعہ میں حمد باری تعالیٰ، عقائد و عبادات کی تعلیم، وعظ و نصیحت اور حالات پر تبصرہ فرماتے تھے اور یہ خطبہ دو حصوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ آپ کی اسی سنت کو زندہ رکھتے ہوئے امتِ مسلمہ نے تواتر کے ساتھ خطبہ جمعہ کے ان مشتملات کو شامل رکھا ہے ۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
کَانَ النَّبِيُّ یَخْطُبُ قَائِمًا ثُمَّ یَقْعُدُ ثُمَّ یَقُومُ کَمَا تَفْعَلُونَ الْآنَ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے۔ پھر بیٹھتے، پھر کھڑے ہو جاتے جیسے تم اب کرتے ہو۔
بخاري، الصحیح، كتاب الجمعة، باب الخطبة قائما وقال أنس بينا النبي يخطب قائما ومواضعه، 1: 311، رقم: 878، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة
یہی وجہ ہے کہ آج بھی عربی خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر دو حصوں میں دیا جاتا ہے اور درمیان میں خطیب چند لمحات کے لئے بیٹھتا ہے۔اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ہے کہ:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ خُطْبَتَيْنِ يَقْعُدُ بَيْنَهُمَا.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو خطبے دیا کرتے اور ان کے درمیان بیٹھا کرتے تھے۔
بخاري، الصحیح، كتاب الجمعة، باب القعدة بين الخطبتين يوم الجمعة، 1: 314، رقم: 886
اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
كَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُطْبَتَانِ يَجْلِسُ بَيْنَهُمَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَيُذَكِّرُ النَّاسَ.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو خطبے دیتے تھے، جن کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھا کرتے تھے قرآن مجید پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت فرماتے۔
عظیم فقیہ امام علاء الدین کاسانی بیان کرتے ہیں:
وَأَمَّا سُنَنُ الْخُطْبَةِ فَمِنْهَا أَنْ يَخْطُبَ خُطْبَتَيْنِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ قَالَ: يَنْبَغِي أَنْ يَخْطُبَ خُطْبَةً خَفِيفَةً يَفْتَتِحُ فِيهَا بِحَمْدِ اللَّهِ تَعَالَى وَيُثْنِي عَلَيْهِ وَيَتَشَهَّدُ وَيُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَعِظُ وَيُذَكِّرُ وَيُقْرَأُ سُورَةً ثُمَّ يَجْلِسُ جِلْسَةً خَفِيفَةً، ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ خُطْبَةً أُخْرَى.
خطبہ جمعہ کی سنتوں میں ایک یہ ہے کہ دو خطبے پڑھے جیسا کہ حسن بن زیاد نے امام ابو حنیفہ سے روایت کی کہ انہوں نے فرمایا امام کو ایک ہلکا پھلکا خطبہ پڑھنا چاہئے جس کی ابتداء اﷲ کی حمد و ثناء، شہادت اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود شریف سے ہو اور وعظ و نصیحت کرے اور کوئی سورہ پڑھے، پھر تھوڑا سا بیٹھے پھر کھڑا ہو کر دوسرا خطبہ دے۔
کاساني، بدائع الصنائع، 1: 263، بيروت: دار الكتاب العربي
لہٰذا خطبہ جمعہ دو حصوں میں دینا اور درمیان میں خطیب کا تھوڑا سا بیٹھنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، اگر کوئی ایک خطبہ دے تو پھر بھی خطبہ ادا ہو جاتا ہے لیکن وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک سنت سے محروم رہتا ہے۔
2۔ اقامت کے الفاظ کی تعداد کے بارے میں فقہاء کرام کے دو مذہب ہیں۔ احناف کے نزدیک اقامت میں اذان کی طرح کلمات میں تکرار ہے جبکہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک سوائے تکبیر کے اقامت کے کلمات میں تکرار نہیں ہے۔ ان دونوں مذاہب کی بنیاد احادیث پر ہے۔ یہاں صرف احناف کے موقف کی تائید میں احادیث پیش کی گئی ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن زید نے بیان کیا ہے:
كَانَ أَذَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَفْعًا شَفْعًا فِي الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذان اور اقامت دو دو مرتبہ تھی۔
اسی طرح ابو بکر عبد اللہ بن محمد بن ابی شیبہ الکوفی نے صحیح سند کے ساتھ حدیث نقل کی ہے کہ حضرت عبد الرحمٰن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيُّ، مُؤَذِّنُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْفَعُ الْأَذَانَ وَالْإِقَامَةَ.
حضرت عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے موذن تھے وہ اذان اور اقامت کے الفاظ دہرے دہرے ادا کرتے تھے۔
ابن أبي شيبة، المصنف، كتاب الأذان والإقامة، من كان يشفع الإقامة ويرى أن يثنيها، 1: 187، رقم: 2139، الرياض: مكتبة الرشد
اور حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَهُ الأَذَانَ تِسْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً، وَالإِقَامَةَ سَبْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اذان انیس کلمات اور تکبیر سترہ کلمات سکھائی۔
لہٰذا فقہ حنفی کے مطابق اقامت کے کلمات دو دو بار ہی ہیں اور فقہ شافعی، حنبلی اور مالکی کے مطابق تکبیر کے علاوہ ایک ایک بار ہیں۔ آپ اپنے فقہی مذہب کے مطابق عمل کریں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔