جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
1۔ آپ کی نمازیں ادا ہو گئی ہیں، دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
2۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلوع آفتاب (سورج نکلتے وقت)، وقت استواء (جب سورج بالکل درمیان میں ہوتا ہے) اور غروب آفتاب (سورج ڈوبتے وقت) نماز پڑھنے سے منع فرمایا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ مُوسَی بْنِ عُلَيٍّ عَنْ اَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ يَقُولُا ثَـلَاثُ سَاعَاتٍ کَانَ رَسُولُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يَنْهَانَا اَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ اَوْ اَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّی تَرْتَفِعَ وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّی تَمِيلَ الشَّمْسُ وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّی تَغْرُبَ.
موسیٰ بن علی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں تین اوقات میں نماز پڑھنے اور اموات کو دفن کرنے سے روکتے تھے: ایک طلوع آفتاب کے وقت جب تک وہ بلند نہ ہو جائے، دوسرا ٹھیک دوپہر کے وقت یہاں تک کہ زوال نہ ہو جائے، تیسرا غروبِ آفتاب کے وقت تاوقتیکہ وہ مکمل غروب نہ ہو جائے۔
اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
لَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّی تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّی تَغِیبَ الشَّمْسُ.
صبح کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے۔
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
نَهَی رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم عَنْ صَلَاتَیْنِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ.
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو نمازوں سے منع فرمایا یعنی فجر کے بعد یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے اور عصر کے بعد یہاں کہ سورج غروب ہو جائے۔
فقہاء کرام نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے کہ طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک فجر کی سنتوں کے علاوہ کوئی بھی نفلی نماز جائز نہیں ہے ہاں اگر فوت شدہ نماز باقی ہو تو قضاء کر سکتے ہیں۔ امام قدوری فرماتے ہیں:
یُکْرَهُ أَنْ یَتَنَفَّلَ بَعْدَ صَلَاةِ الْفجْرِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعد صَلَاةِ الْعَصْرِ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ؛ وَلَا بَأْسَ بِأَنْ یُصَلِّيَ فِي هٰذَیْنِ الْوَقْتَیْنِ الْفَوَائِتِ، وَیَسْجُدَ لِلتِّلاَوَةِ، وَیُصَلِّی عَلَی الْجَنَازَةِ، وَلَا یُصَلِّي رَکعَتَي الطَّوَافِ. وَیُکْرَهُ أَنْ یَتَنَفَّلَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ بِأَکْثَرَ مِنْ رَکْعَتَيِ الْفَجْرِ وَلَا یَتَنَفَّلُ قَبْلَ الْمَغْرِبِ.
نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک اور نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک نفل پڑھنا مکروہ ہے۔ اور ان دونوں اوقات میں فوت شدہ نمازیں قضاء کرنے، سجدہ تلاوت اور نماز جنازہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور طواف کی دو رکعت ادا نہ کرے۔ اور صبح صادق کے بعد سنتِ فجر سے زائد نوافل پڑھنا مکروہ ہے اور نہ ہی مغرب سے پہلے نفل پڑھے۔
أحمد بن محمد، مختصر القدوري: 84-85، بیروت، لبنان: مؤسسة الریان
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ ممنوع اوقات میں نوافل کی ادائیگی جائز نہیں، اس لیے خانہ کعبہ میں بھی ممنوع اوقات میں نوافل ادا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
3۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى.
اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو۔
البقرة 2: 125
اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ مطلب بن ابو وداعہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ سَبْعِهِ جَاءَ، حَتَّى يُحَاذِيَ بِالرُّكْنِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فِي حَاشِيَةِ الْمَطَافِ، وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الطُّوَّافِ أَحَدٌ.
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ ساتوں طواف سے فارغ ہوچکے تو رکن یمانی کے قریب پہنچ کر طواف والی جگہ میں دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور طواف کرنے والوں کے درمیان کوئی آڑ نہ تھی۔
ابن ماجه، السنن، كتاب المناسك، باب الركعتين بعد الطواف، 2: 986، رقم:2958، بيروت: دار الفكر
تحیۃ الطواف: حج میں فرض طواف کے بعد مقامِ ابراہیم پر دو رکعات نوافل نماز ادا کرنا واجب ہے۔ اس کے علاوہ عمرہ سمیت ہر طواف کے بعد دو رکعات ادا کرنا سنت ہے۔ اگر طواف کے بعد مکروہ وقت ہو تو انتظار کیا جائے اور مکروہ وقت کے گزرنے پر نوافل ادا کیے جائیں۔
4۔ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی انسان پر قربِ خداوندی کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اس وقت دعا قبول ہونے کی قوی امید رکھی جاسکتی ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں پہلی نظر کے ساتھ دعا کی قبولیت کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی۔ حضرت ابو امامہ باھلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تُفْتَحُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَيُسْتَجَابُ الدُّعَاءُ فِي أَرْبَعَةِ مَوَاطِنَ: عِنْدَ الْتِقَاءِ الصُّفُوفِ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَعِنْدَ نُزُولِ الْغَيْثِ، وَعِنْدَ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَعِنْدَ رُؤْيَةِ الْكَعْبَةِ.
آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور چار مقامات میں دعا قبول ہوتی ہے: جب صفیں اللہ کی راہ میں (جنگ کے لیے) مل کر کھڑی ہوں، بارش برستے وقت، نماز قائم ہوتے وقت اور دیدارِ کعبہ کے وقت۔
ایک روایت میں ہے کہ:
كَانَ النَّبِىُّ صلى الله عليه وسلم إِذَا دَخَلَ مَكَّةَ فَرَأَى الْبَيْتَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَكَبَّرَ وَقَالَ: اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْكَ السَّلاَمُ فَحَيِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلاَمِ، اللَّهُمَّ زِدْ هَذَا الْبَيْتَ تَشْرِيفًا وَتَعْظِيمًا وَتَكْرِيَما وَمَهَابَةً وَزِدْ مَنْ حَجَّهُ أَوِ اعْتَمَرَهُ تَكْرِيمًا وَتَشْرِيفًا وَتَعْظِيمًا وَبِرًّا.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ شہر میں داخل ہوتے اور خانہ کعبہ پر نظر پڑتی تو دونوں ہاتھ اٹھاتے اور اللہ اکبر کہتے اور یہ دعا پڑھتے: اے اللہ تو سلام ہے اور تری طرف سے سلام اترتا ہے، لہٰذا ہمارے پروردگار ہمیں سلامتی کے ساتھ زندہ رکھ۔ اے اللہ اس گھر کی بزرگی وتعظیم وتکریم ورعب وھیبت میں مزید اضافہ فرما۔ اور جو کوئی اس کا حج یا عمرہ کرے، اس کی عزت وتکریم وبزرگی وعظمت اور بھلائی میں اضافہ فرما۔
بيهقي، السنن الكبرى، كتاب الحج، باب القول عند رؤية البيت، 5: 73، رقم:8995
مذکورہ احادیث کی اسناد ضعیف ہیں لیکن فضائل کے باب میں ان احادیث کو نقل کرنے میں حرج نہیں۔ خانہ کعبہ پر نظر پڑتے ہی دعا مانگنی چاہیے‘ قبول و رد کا اختیار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔