جواب:
حق مہر کی رقم پر بیوی کو ملکیت کا حق ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاءَ كَرْهًا وَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُواْ بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلاَّ أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا.
اے ایمان والو! تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ، اور انہیں اس غرض سے نہ روک رکھو کہ جو مال تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ (واپس) لے جاؤ سوائے اس کے کہ وہ کھلی بدکاری کی مرتکب ہوں، اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو، پھر اگر تم انہیں نا پسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دے۔
النساء، 4: 19
اس آیتِ مبارکہ میں شوہروں کو منع کیا گیا ہے کہ اگر بیویوں کے ساتھ ان کا نباہ نہ ہوسکے اور علیحدگی ہو جائے تو بیویوں سے حق مہر واپس نہ لو۔ اس سے حق مہر کی رقم پر عورت کی ملکیت ثابت ہوتی ہے۔ اگلی آیت میں مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے:
وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناً.
اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم ناحق الزام اور صریح گناہ کے ذریعے وہ مال (واپس) لینا چاہتے ہو۔
النساء، 4: 20
مذکورہ دونوں آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حق مہر سمیت بیوی کو دیے جانے والے تحائف اس کی ملکیت ہوتے ہیں۔ بیوی اگر برضا و رغبت شوہر کو کچھ دینا چاہے تو فبہا، اگر نہ دے تو شوہر زبردستی نہیں لے سکتا۔
قرآن و حدیث میں حق مہر کی کوئی خاص مقدار متعین نہیں کی گئی، البتہ فقہاء نے کم سے کم مقدار دس درہم مقرر کی ہے اس سے کم حق مہر نہیں دیا جائے گا۔ حق مہر کا تعین فریقین یعنی میاں بیوی کی باہمی رضامندی سے بھی ہو سکتا ہے اور مروجہ مقدار کو بھی معیار بنایا جاسکتا ہے۔ شرعاً یہ دونوں طریقے جائز ہیں۔ ہماری دانست میں دورِ حاضر میں اس کا تعین فریقین کی باہمی رضامندی سے ہونا چاہیے تاکہ حق مہر کی کسی الجھن کے سبب ازدواجی متاثر نہ ہو۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
شرعاً حق مہر کی کم سے کم کیا مقدار ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔