جواب:
ڈھول، دف، ساز، باجا، بانسری، طبلہ، چمٹا وغیرہ فی نفسہ ممنوع نہیں بلکہ ان کی ممانعت اس وقت ہے جب ان آلات کے ذریعے فحاشی‘ بےحیائی اور بےراہ روی پھیلائی جائے یا اخلاقی طور پر پست درجے کا کلام گایا جائے۔ اس کے برعکس جو کلام‘ شاعری یا لوک کہانیاں آلاتِ موسیقی کے بغیر پڑھنا‘ سننا جائز ہے وہ آلات موسیقی کے ساتھ پڑھنا سننا بھی جائز ہے۔ یعنی اصل حکم کا تعلق اس چیز سے ہے جو ان آلات کے ساتھ پڑھی یا گائی جا رہی ہو، سرے سے یہ آلات ہی ممنوع اور حرام نہیں۔ سو اگر ان آلات کے ذریعے مباح اور جائز چیز پڑھی جا رہی ہوں تو وہ جائز ہی ہوں گی اور کفریہ، شرکیہ یا فحش افکار پر مبنی یا کوئی اور ممنوع کلام سنایا جا رہا ہو تو وہ ناجائز ہو گا۔ یہی مؤقف آئمہ اربع، امام داؤد ظاہری، سفیان ثوری، امام شوکانی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی سمیت علماء کی ایک بڑی جماعت کا ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔